کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 335
کہ قتلِ نفس اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں سے نہیں ہے تو اس نے یہ گمان کیا کہ مقتول بے موت مر گیا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہو گا، بلکہ یہ کام اللہ ہی کے حکم سے ہوا ہے یہ اس کا عدل ہے، اس کی خلق پر اس کے علم کے موافق اس کی تدبیر ہے، جو کچھ اس نے کیا وہ سچا عدل ہے، اللہ تعالیٰ کے علم کے معترف کو یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت کا اقرار کرنے والاہو۔
کسی کے حق میں دوزخ کی گواہی:
کوئی شخص اہلِ قبلہ میں سے کسی آدمی کے حق میں یہ گواہی نہ دے کہ وہ دوزخ میں ہے، کسی ایسے گناہ کے سبب جس کا وہ مرتکب ہوا ہے یا کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے جو اس سے سرزد ہوا ہے الایہ کہ کسی نص یا حدیث میں آیا ہو۔ اسی طرح کسی کے جنتی ہونے کی گواہی نہ دے کسی نیک کام کے سبب جو اس نے کیا ہے یا کسی بھلائی کے باعث جو اس سے ہوئی ہے، مگر یہ کہ کسی حدیث میں آیا ہو۔
خلافت کا حق دار:
جب تک قریش میں سے دو آدمی بھی باقی رہیں خلافت وسلطنت انھیں میں ہے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بادشاہی میں قریش سے جھگڑا کرے یا ان پر خروج کرے یا غیر قریش کے لیے خلافت کا اقرار کرے۔
بادشاہ کے حقوق:
جہاد کا حکم قیامِ قیامت تک جاری ہے۔ جہاد ہر امام کے ساتھ قائم ہے وہ امام خواہ نیک ہو یا بد، اس جہاد کو ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کرتا۔ جمعہ، دونوں عیدیں اور حج بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے اگرچہ وہ نیک، عادل اور متقی نہ ہو۔ رعایا صدقات، خیرات، عشر، خراج، فے اور مالِ غنیمت بادشاہ کو دے، اب بادشاہ پر ہے کہ وہ اس میں عدل کرے یا ظلم۔ اللہ تعالیٰ نے جسے والی امر بنایا ہے مسلمان اس کی اطاعت کرے اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے اور اس پر تلوار لے کر خروج نہ کرے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکالے۔ بادشاہ کی سمع و طاعت کرے، اس کی بیعت کو نہ توڑے، جو کوئی ایسا نہ کرے گا وہ بدعتی، سنت کا مخالف اور مفارقِ جماعت ہے۔ بادشاہ اگر ایسے کام کا حکم دے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے تو اس میں بادشاہ کی اطاعت نہیں ہے۔ بادشاہ پر خروج کرنا اور اس کے حق کو روکنا درست نہیں ہے۔