کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 334
زشت، اول اور آخر سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس کا ایک حکم ہے جو سب بندوں پر جاری ہے۔ اس کی ایک قدر ہے جسے اس نے ان پر مقدر کیا ہے۔ کوئی نفس اس کی مشیت اور قضا سے تجاوز نہیں کرتا، بلکہ سارے لوگ وہی کام کرتے ہیں جس کے لیے اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ جو کچھ ان کی تقدیر میں لکھا ہے اس میں وہ گرفتار ہوتے ہیں یہ اس کا عدل ہے۔ زنا، چوری، شراب خوری، قتلِ نفس، مالِ حرام کھانا، شرک اور سارے گناہ کرنا اللہ کی قضا وقدر ہے بغیر اس کے کہ مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت ہو، بلکہ اس کی حجتِ بالغہ ان پر قائم ہے، اس سے کوئی کچھ نہیں پوچھ سکتا، یہی پوچھے جاتے ہیں۔
علمِ الٰہی:
اس کا علم اس کی مشیت کے موافق مخلوق میں جاری ہے۔ وہ ابلیس وغیرہ نافرمانوں کی نافرمانی کو جانتا تھا جب انھوں نے اس کی وہ نافرمانی کی ہے اور قیامت کے قائم ہونے تک اس نے نافرمانوں کو نافرمانی کے لیے پیدا کیا ہے، اس نے اہلِ طاعت سے طاعت کو معلوم کر لیا ہے۔
مشیت و ارادہ:
ہر کوئی وہی کام کرتا ہے جس کام کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے، وہ اللہ ہی کے حکم کی طرف لوٹتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے کوئی تجاوز نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ ہی ہے جو چاہے سو کرے۔ جو شخص یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ چاہا تھا کہ نافرمان لوگ خیر وطاعت بجا لائیں لیکن بندوں نے اپنے لیے شر اور معصیت چاہی اور اپنی خواہش کے مطابق کام کیا تو وہ شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ گویا بندوں کی خواہش اللہ تعالیٰ کی خواہش پر غالب ہے، اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر اور کیا افترا ہو گا۔ جس نے یہ گمان کیا کہ زنا تقدیر سے نہیں ہے اسے یہ کہنا چاہیے کہ بھلا یہ عورت جو زنا سے حاملہ ہوئی ہے اور اس نے بچہ جنا ہے، اللہ نے اس بچے کو پیدا کرنا چاہا تھا یا نہیں؟ اگر وہ کہے: نہیں، تو اس نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور خالق بھی ہے اور یہ کھلا شرک ہے اور جس نے یہ گمان کیا کہ زنا، چوری، بادہ نوشی اور حرام مال کھانا قضا و قدر سے نہیں ہے تو اس نے یہ گمان کیا کہ آدمی اس بات پر قادر ہے کہ کوئی دوسرا اس کا رزق کھا جائے، جو صرف مجوسیوں کا قول ہے، بلکہ اس نے تو اپنا ہی کھایا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا تھا اور اسی طرح کھایا جیسے اس کی تقدیر میں تھا، جس نے یہ گمان کیا