کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 328
نزدیک الگ چیز ہے اور مکون الگ چیز ہے، کیونکہ فعل مفعول کے مغایر ہوا کرتا ہے۔ 6۔ارادہ اللہ تعالیٰ کی ایک ازلی صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی مثل، شبہ، ضد، ند، ظہیر اور معاون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے غیر کے ساتھ متحد ہوتا ہے نہ غیر میں حلول کرتا ہے۔ وہ تو جمیع صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہے اور تمام سمات، نقص اور زوال سے منزہ اور پاک ہے۔ 7۔اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے دیکھنا عقلاً جائز اور نقلاً واجب ہے۔ سمعی دلیل نے مومنوں کے لیے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رویت کو واجب بتلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دن نظر آئے گا، لیکن آمنے سامنے اور اتصالِ شعاع یا دیکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ثبوتِ مسافت کے طور پر کسی مکان اور جہت میں نہیں،[1] یوں مسلمان قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے۔ 8۔بندوں کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کفر ہو یا ایمان، طاعت ہو یا عصیان؛ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ارادے، مشیت، حکم اور قضا وتقدیر سے ہوتا ہے۔ 9۔بندوں کے اختیاری افعال پر، اگر وہ اطاعت والے ہیں، ثواب اور اگر معصیت و نافرمانی پر مشتمل ہیں تو عقاب کیا جاتا ہے۔ اچھا عمل اللہ کی رضا سے ہے اور برا عمل اسے ناپسند ہے۔ وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کرے۔ 10۔ استطاعت فعل کے ہمراہ ہے۔[2] یہی استطاعت اس قدرت کی حقیقت ہے جس سے فعل ہوا کرتا ہے۔ یہ نام سلامتِ اسباب، آلات اور جوارح پر بولا جاتا ہے اور صحتِ تکلیف کا اعتماد اسی استطاعت پرہے۔ جو چیز بندے کی وسعت اور طاقت میں نہیں ہوتی، بندے کو اس کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ 11۔مار کے بعد جو درد ہوتا ہے اور توڑنے کے بعد جو شکستگی شیشے میں پائی جاتی ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، بندے کو اس کے پیدا کرنے میں کوئی دسترس نہیں ہے۔
[1] اہلِ حدیث کے نزدیک ان الفاظ کے ساتھ بحث کرنا بدعت ہے۔ کیوں کہ کتاب و سنت سے فقط رویتِ باری تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے اس میں ان قیود کا وجود نہیں۔ ہم کون ہیں جو اس میں خوض کریں اور عقیدے کے مسئلے میں حیص بیص کے سبب راہِ صواب سے دور جا پڑیں، وباللّٰہ العصمۃ۔ [مولف رحمہ اللہ ] [2] یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ایسی بحث میں سلف نے کوئی بحث و کلام نہیں کیا۔ [مولف رحمہ اللہ ]