کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 321
کے مصاحب تھے، بھی اسی طرف گئے ہیں۔ قرآن کے تلفظ کو بھی مخلوق کہنا کفر ہے۔ ابو عمر ومستملی، ابن جریر طبری اور امام احمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے جس طرح اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے اور اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: استوا معلوم ہے، اس کی کیفیت عقل میں نہیں آتی، استوا کا اقرار ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اتنا اور کہا ہے: اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔ حسین بن فضل اور عبداللہ بن مبارک رحمہما اللہ کا بھی یہی قول ہے اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر رات کسی تشبیہ، تکییف، تعطیل اور تاویل کے بغیر آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ 5 مرنے کے بعد قبروں سے اٹھنا، حشرونشر کے احوال کا واقع ہونا، نامہ اعمال کا ہاتھوں میں ملنا، پل صراط سے گزرنا اور اعمال کا ترازو میں وزن ہونا حق ہے۔ 6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے موحدین کے لیے شفاعت کرنا، جن سے کبیرہ گناہ سر زد ہوئے ہوں گے، حق ہے۔ 7۔ حوض کوثر، حساب وکتاب کا ہونا، مسلمانوں کی ایک جماعت کا حساب کے بغیر جنت میں جانا اور نافرمانوں کا آگ میں داخل ہونا حق ہے، مگر یہ نافرمان لوگ آگ میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ 8۔ مومنوں کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو چودھویں رات کے چاند کی طرح دیکھنا حق ہے، چنانچہ وہ سر کی آنکھوں سے اسے دیکھیں گے۔ 9۔ جنت اور جہنم پیدا ہو چکی ہیں، وہ باقی رہیں گی، وہ فنا نہیں ہوں گی اور موت ذبح کر دی جائے گی۔ جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں ہمیشہ کے لیے باقی رہیں گے۔ 10۔ ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے یقین کرنے کا نام ہے جو کم اور زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ عبادت بجا لانے سے یہ زیادہ اور گناہ کا ارتکاب کرنے سے کم ہو جاتا ہے اور اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ 11۔ مومن سے خواہ کبیرہ یا صغیرہ کتنے ہی گناہ سرزد ہوں وہ کافر نہیں ہوتا، اگر وہ توبہ کیے بغیر توحید و اخلاص پر فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ بدوں کسی عذاب کے اسے معاف کر کے جنت میں لے جائے اور چاہے تو اس کے گناہ کی مقدار برابر عذاب دے کر پھر اسے بخش دے۔