کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 320
ساتویں فصل
امام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمن صابونی رحمہ اللہ کے عقائد کا بیان
1۔ علماے حدیث اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ یہ لوگ اللہ کو ان صفات سے پہچانتے ہیں جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی ہیں یا صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوئی ہیں اور معتبر لوگوں نے ان کو نقل کیا ہے۔ محدثین ان صفات کو ثابت کرتے ہیں اور انھیں مخلوق کی صفات کے مانند نہیں کہتے، بلکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے، جیسے قرآن میں آیا ہے: ﴿خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾[صٓ: ۷۵] [جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا] اور وہ تکییف، تشبیہ، تحریف، تعطیل اور تمثیل سے بچتے ہیں اور کہتے ہیں: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے] وہ اللہ تعالیٰ کے لیے سمع، بصر، عین، وجہ، علم، قوت، قدرت، عزت، عظمت، ارادہ، مشیت، کلام، رضا، غضب، دوستی، دشمنی، خوشی اور ضحک وغیرہ صفات کے، بلا تشبیہ وتاویل، قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تاویل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
2۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کی کتاب منزل اور وحی ہے جو مخلوق نہیں۔ یہ کلام اس کی صفت ہے اور خلقِ قرآن کا قائل کافر ہے۔ جبریل علیہ السلام اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ یہ قرآن عربی زبان میں ہے اور بشیر ونذیر ہے۔ یہ سینوں میں محفوظ، زبانوں پر مقروء اور مصاحف میں مکتوب ہے۔ جو اسے مخلوق کہے اس کی گواہی نادرست، اس کی بیماری میں عیادت کرنا ناجائز اور اگر وہ مر جائے مسلمان اس کی نماز جنازہ ادا نہ کریں اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کریں۔ اگر وہ زندگی میں توبہ کر لے تو بہتر ہے ورنہ اس کی گردن مار دیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور شیخ ابو بکر اسماعیل رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ ابن مہدی، جو ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ