کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 318
کتاب ’’المسایرۃ في العقائد المنجیۃ في الآخرۃ‘‘ کا تعارف:
شیخ ابن الہمام نے ’’مسایرہ‘‘ کو امام غزالی رحمہ اللہ کے رسالہ قدسیہ میں درج شدہ عقائد میں مزید اضافوں اور وضاحتوں کے ساتھ تحریر فرمایا ہے، اس میں انھوں نے اسی رسالے کی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے اور اس میں ایک خاتمے کا اضافہ کر کے ایمان واسلام اور ان کے ساتھ متصل و متعلق مسائل کی بحث کی ہے۔ انھوں نے دیباچے میں کہا ہے:
’’إن بعض الفقراء من الإخوان کان قد شرع في قرائۃ الرسالۃ القدسیۃ للإمام الحجۃ أبي حامد الغزالي فلما توسطہا أحب أن أختصرھا وأحببت ذلک فشرعت علی ھذا القصد فلم أستمر علیہ إلا نحو ورقتین، ویعرض للخاطر استحسان زیادات أراني الذي یریني إن ذکرھا مہم، وإنہ تتمیم لطالب الغرض فلم یزل یزداد حتی خرج عن القصد الأوّل فلم یبق إلا کتابا مستقلا غیر أنہ یسائرھا في تراجمہ، وزدت علیھا خاتمۃ ومقدمۃ ۔۔۔ إلیٰ قولہ: وبالغت في توضیحہ وتسھیلہ إذ لم أضعہ إلا لیسھل علی الأوساط والمبتدئین وسمیتہ ’’کتاب المسایرۃ في العقائد المنجیۃ في الآخرۃ۔‘‘ انتہیٰ
[ایک بھائی نے امام وحجت ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ کا رسالہ قدسیہ پڑھنا شروع کیا تو جب وہ اس کے درمیان میں پہنچا تو اس نے یہ چاہا کہ میں اس رسالے کو مختصر کر کے تحریر کروں، مجھے اس کی یہ تجویز پسند آئی اور میں اس کام پر لگ گیا، ابھی دو ورقوں پر ہی کام ہوا تھا کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر میں اس میں کچھ ایسے اضافے کر دوں جن کا ذکر کرنا مجھے اہم محسوس ہوا اور یقینا وہ طالب غرض کے لیے ایک تتمہ اور تکملہ ہے، تو اس طرح اس کتاب میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ اصل مقصود سے آگے نکل گئی اور وہ ایک مستقل کتاب کی صورت اختیار کر گئی، مگر وہ ابواب و معانی میں اس پہلی کتاب کے موافق تھی، پھر میں نے اس پر ایک خاتمے اور مقدمے کا اضافہ کیا۔ میں نے اس کی وضاحت اور تسہیل میں خوب محنت کی اور میں نے ایسا اس لیے کیا