کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 317
[اور خدا نے چاہا تو ہم تم سے جلد ہی ملنے والے ہیں] اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان قبروں والوں کے ساتھ جا ملنے میں کوئی شک نہیں تھا۔ عرفِ عام میں اس کا استعمال اظہارِ رغبت اور اظہارِ تمنا کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے کوئی کہتا ہے کہ فلاں مرے گا یا آئے گا تو کہتے ہیں: إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ 3۔ اس سے مراد یہ ہے: ’’أنا المؤمن حقا إن شاء اللّٰه تعالیٰ‘‘ [ان شاء اللہ تعالیٰ میں سچا مومن ہوں] فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا﴾[الأنفال: ۴] [یہی لوگ سچے مومن ہیں] اس صورت میں شک کمالِ ایمان میں ہے نہ کہ اصلِ ایمان میں اور یہ کوئی کفر نہیں ہے، بلکہ دو وجہ سے حق ہے۔ ایک یہ کہ ایمان اعمالِ طاعات سے کامل ہوتا ہے لیکن اس کا کامل وجود معلوم نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ نفاق کمالِ ایمان کو زائل کرنے والا ہے اور وہ ایک مخفی امر ہے جس سے بری ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے: (( أَکْثَرُ مُنَافِقِيْ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ قُرَّاؤُھَا )) [1] [اس امت کے اکثر منافق قرا ہیں] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَإِنَّہُ أَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النَّمْلِ )) [2] [یقینا وہ شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے] 4۔ خاتمے کا خوف ہے، معلوم نہیں کہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے گا یا نہیں، اگر خاتمہ کفر پر ہوا تو سابقہ ایمان برباد ہو جائے گا، کیونکہ وہ سلامتِ آخرت پر موقوف ہے، و اللّٰہ أعلم۔ ’’إحیاء الإحیائ‘‘ کا کلام ختم ہوا، وللّٰہ الحمد۔
[1] مسند أحمد (۴/۱۵۵) شعب الإیمان للبیھقي (۵/۳۶۳) [2] مسند أحمد (۴/۴۰۳) المعجم الأوسط للطبراني (۳/۱۰) حلیۃ الأولیاء (۹/۲۵۳) مصنف ابن أبي شیبۃ (۱۰/۳۳۷۔ ۳۳۸)