کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 316
1۔ لغت میں ایمان تصدیق کے معنی میں ہے اور اسلام تسلیم، اذعان اور انقیاد کے معنی میں اور تمرد و ابا کے ترک کے معنی میں ہے۔ لہٰذا تصدیق تو دل کے ساتھ مخصوص ہے اور زبان ترجمان دل ہے، جبکہ تسلیم دل، زبان اور جوارح کے ساتھ عام ہے، پس ہر تصدیق قلبی تسلیم اور ترکِ ابا وجحود ہے اور تسلیم تصدیق نہیں ہے۔ تو اسلام اعم ہے اور ایمان اجزاے اسلام میں سے اشرف جز ہے۔
2۔ شرع میں یہ دونوں مترادف، مختلف اور متداخل آئے ہیں، حدیث میں ہر ایک قول پر دلیل موجود ہے۔ سلف نے عمل کو جو ایمان میں شمار کیا ہے تو ا س کی وجہ یہ ہے کہ ایمان اسلام کا تتمہ اور تکملہ ہے۔
3۔ ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں سلف کا قول یہ ہے کہ اطاعت سے ایمان بڑھتا اور معصیت و نافرمانی سے گھٹتا ہے۔
ایمان کی گواہی میں سلف کا طریقہ:
سلف یوں کہا کرتے تھے: ’’إنا مؤمنون إن شاء اللّٰہ ‘‘ [ان شاء اللہ ہم مومن ہیں] چنانچہ تین وجوہ سے یہ استثنا صحیح ہے:
1۔ اس لیے کہ ایمان کے دعوے میں تزکیہ نفس کا خوف اور ڈر ہے، جب کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلاَ تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ﴾[النجم: ۳۲] [سو اپنی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو] ایک حکیم اور دانا شخص سے پوچھا گیا: صدق قبیح [برا سچ] کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: خود اپنی ثنا اور تعریف کرنا اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔
2۔ اس میں یہ ادب ہے کہ ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنا چاہیے اور سارے امور کو اللہ کی مشیت کے سپرد کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا * اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ﴾
[الکھف: ۲۳۔۲۴]
[اور کسی چیز کے بارے میں ہرگز نہ کہہ کہ میں یہ کام کل ضرور کرنے والا ہوں۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان میں تشریف لے جاتے تو کہتے:
(( وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ )) [1]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۴۹)