کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 314
عذابِ قبر کی نفی کے لیے دلیل نہیں ہے، کیونکہ اس عذاب کا ادراک کرنے والا ایک جز یا اجزاے مخصوصہ ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ادراک کے اعادے پر قادر ہے۔
اصل چہارم:
میزان حق ہے۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ صحائفِ اعمال میں اعمال کے درجات کے حسبِ حال عذاب میں عدل کے اظہار کے لیے، معافی اور ثواب میں اضافے کے ساتھ اپنے فضل کے اظہار کے لیے وزن کرے گا۔
اصل پنجم:
صراط حق ہے، اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں وارد ہوا ہے اور یہ ممکن ہے۔ وہ اللہ جسے یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ پرندے کو ہوا میں اڑاتا ہے، اسے یہ قدرت بھی ہے کہ انسانوں کو ایسی چیز پر چلائے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔
اصل ششم:
جنت اور جہنم برحق ہیں، چنانچہ یہ دونوں پیدا ہو چکی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾[آل عمران: ۱۳۳] [ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے] اور ﴿اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ﴾[البقرۃ: ۲۴] [کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے] اور یہ کہنا کہ جزا اور سزا کے دن سے پہلے ہی انھیں پیدا کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ بے فائدہ ہے، کیوں کہ ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ﴾[الأنبیائ: ۲۳] [اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے]۔
اصل ہفتم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامِ حق ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی امام پر نص نہیں فرمائی ہے، ورنہ وہ ہم تک منقول ہو کر پہنچتی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے نص فرماتے تو سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول مان کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت لازم آتی، جبکہ کوئی عقلمند انصاف پسند اسے جائز قرار نہیں دے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے امامت کے مسئلے پر جھگڑا نہیں کیا، بلکہ ان کی بات کی بنیاد اجتہاد پر تھی۔ علی رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ حکومت کو قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرنے کا انجام امرِ امامت میں