کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 312
[وہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے] 4۔ اللہ تعالیٰ اس ایجادِ و خلق میں متفضل ہے، اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ 5۔ انسان کو اس کام کی تکلیف دینا جائز ہے جو اس کی طاقت میں نہ ہو۔[1] اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو اس سے بچنے کا سوال کیوں کیا جاتا؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ﴾[البقرۃ: ۲۸۶] [اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس (کے اٹھانے) کی ہم میں طاقت نہ ہو] 6۔ بندوں کو کسی جرم اور ثواب کے بغیر عذاب دینا جائز ہے برخلاف معتزلہ کے، کیونکہ یہ اپنے مِلک میں تصرف ہے، جبکہ ظلم تو غیر کے مِلک میں تصرف کرنے کو کہتے ہیں اور یہاں اس کے غیر کی کوئی مِلک ہی نہیں ہے، نیز اس کے جواز پر اس کا وجود دلیل ہے۔ جانوروں کو ذبح کر کے تکلیف دینا ان کے جرم کے بغیرہی ہوتا ہے۔ 7۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ جو چاہے سو کرے، اس کے لیے اس بات کی رعایت رکھنا واجب نہیں ہے کہ وہ بندوں کو ایسے کاموں کا حکم دے جو ان کے لیے ٹھیک اور نفع بخش ہوں۔ 8۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی طاعت کی معرفت شرعاً واجب ہے نہ کہ عقلاً۔ 9۔ انبیا کی بعثت مستحیل ومحال نہیں ہے براہمہ کے خلاف، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ عقل ہی کافی ہے، حالانکہ عقل آخرت میں نجات دلانے والے مفید امور کی طرف راہنمائی نہیں کرتی ہے جس طرح عقل مفیدِ صحت دوا کو نہیں جانتی ہے۔ تو جس طرح لوگ تجربہ کار تصدیق شدہ طبیب کے محتاج ہوتے ہیں، اسی طرح معجزے کے ساتھ تصدیق شدہ نبی کے بھی محتاج ہیں۔ 10۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور ان کی شریعت پہلے کے جملہ شرائع کی ناسخ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معجزات ظاہرہ کے ساتھ ان کی تصدیق وتائید کی ہے، جیسے چاند کا پھٹنا اور کنکریوں کا تسبیح خواں ہونا وغیرہ۔ اگر قرآن مجید کے سوا ان کا کوئی معجزہ بھی نہ ہوتا تو ان کی نبوت کو سچ ثابت کرنے کے لیے یہی کافی تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآن کے ساتھ ان لوگوں کو چیلنج کیا جو فصاحت
[1] اس میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا﴾[البقرۃ: ۲۸۶] یہ آیت کریمہ: ﴿رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ﴾ [البقرۃ: ۲۵۶] قابلِ تاویل ہے۔ [مولف رحمہ اللہ]