کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 307
کرے اور جدلِ باطل سے بچے اور احسن مجادلہ ہی پر اکتفا کرے، کیونکہ تمام بدعات اسی علم سے ایجاد ہوئی ہیں حتی کہ اہلِ بدعت کے بہتر (۷۲) فرقے بن گئے۔
شریعت کا ظاہر و باطن:
جس نے یہ کہا کہ ظاہر کے مخالف باطن شریعت ہے تو وہ ایمان سے زیادہ کفر سے قریب تر ہے۔ اس مقام میں لوگ تین طرح پر ہیں، ایک وہ جو حد اعتدال سے تجاوز کر کے ساری شرعیات واردہ کی زبانِ حال کے ساتھ تاویل کرتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ﴾[یٰسٓ: ۶۵]
[اوران کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے]
یا جیسے منکر و نکیر کے خطاب اور اہلِ نار اور ان جیسے لوگوں کے باہم ایک دوسرے سے مخاطب ہونے کی تاویل۔ دوسرے غفلت اور کوتاہی کرنے والے جو اصلاً کسی چیز کی تاویل نہیں کرتے تا کہ تاویل کا یہ دروازہ بند ہی رہے اور امر دین ضبط سے خارج نہ ہو، جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ’’کن فیکون‘‘ کا خطاب حرف اور صوت کے ساتھ ہے۔ اس قسم کے لوگ تاویل سے منع کرتے ہیں سوائے تین جگہوں کے، ایک (( اَلْحَجَرُ الْأَسْوَدُ یَمِیْنُ اللّٰہِ فِيْ الْأَرْضِ )) [1] [حجر اسود زمین میں اللہ کا دستِ راست ہے] دوسرے (( قَلْبُ الْمُؤْمِنِ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ )) [2] [مومن کا دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے] تیسرے: ’’إِنِّيْ لَأَجِدُ نَفْسَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ‘‘[3] [یقینا میں رحمان کے نفس کو یمن کی جانب پاتا ہوں] تو اس احتیاط میں کوئی حرج نہیں۔ تیسرا معتدل گروہ کہ جو چیز اللہ کے ساتھ متعلق ہے اس کی تاویل کرتا ہے اور جو چیز آخرت کے متعلق ہے اس کو ترک کرتا ہے، ایسا کرنے والے اشاعرہ ہیں۔[4] رہے معتزلہ تو
[1] مصنف عبد الرزاق (۵/۳۹)
[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۵۴)
[3] مسند الشامیین (۶/۱۴۹)
[4] ایسا کرنے والے معتدل نہیں بلکہ افراط وتفریط کا شکار ہیں، کیوں کہ انھوں نے طریقہ سلف کو چھوڑ کر نئی راہ اپنائی ہے، جس میں انھوں نے بعض صفات کو تسلیم کیا ہے اور کئی صفاتِ الٰہیہ کا انکار کیا ہے اور یہ صفات میں تاویل کا عقیدہ بھی صحابہ و تابعین کے منہج کے مخالف ہے۔