کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 306
اس تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ جدل وکلام کا طریقہ سیکھے، بلکہ تلاوتِ قرآن، تفسیر، قرائتِ حدیث، معاینہ سنن اور وظائف عبادات میں مشغول ہو۔ اس اشتغال سے اس کا اعتقاد رسوخ میں بڑھتا رہے گا، کیونکہ اس کے کان میں قرآن کے دلائل اور حدیث کے شواہد آئیں گے اور انوارِ عبادات واضح ہوں گی، مشاہدہ صالحین سے ان کا حال اس میں سرایت کرے گا۔ جدل و کلام سے اپنے سمع کی حفاظت کرے، کیونکہ ان کا بگاڑ اصلاح کی نسبت زیادہ ہے۔ صالح عوام کے عقیدے کو متکلمین کے عقیدے سے قیاس کرے۔ عوام کا اعتقاد مضبوط ہو گا، کوئی چیز اسے متغیر نہیں کرتی۔ اہلِ کلام کا اعتقاد کمزور ہو گا، ادنی شبہ اسے زائل کر دے گا۔ بچہ جب اس عقیدہ پر نشوونما پا کر دنیا میں مشغول ہو گا تو اسے اس عقیدے کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے گا اور وہ آخرت میں سلامت رہے گا، کیونکہ شریعت عوام سے ان پر تصدیقِ جازم کا مطالبہ کرتی ہے نہ کہ ان کے دلائل پر بحث و نظر کرنا۔ پھر اگر وہ بچہ آخرت کی راہ چلتے ہوئے تقوی اور ریاضت کو لازم پکڑتے ہوئے خواہشات نفس سے اجتناب کرے گا تو اس کے لیے ہدایت کے دروازے کھل جائیں گے اور ان عقائد کے حقائق اس کے اجتہاد واستعداد کے حسب حال نورِ الٰہی سے کھلنے لگیں گے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾[العنکبوت: ۶۹] [اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے] امام شافعی، مالک، احمد، سفیان اور سلف محدثین رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ علمِ جدل وکلام بدعت اور حرام ہے۔ اگر یہ علم امرِ دین سے ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیتے، لوگوں کو سکھا جاتے اور اس علم والوں کی ثنا و تعریف فرماتے جس طرح فقہ کی تعریف وثنا کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حقائق کو بہت زیادہ جاننے والے تھے اور ترتیب الفاظ میں اپنے غیر کی نسبت بہت فصیح تھے، لیکن کسی نے ان سے اس علم کا سوال نہ کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس علم سے شر پیدا ہوتا ہے۔ بعض نے اس علم کو فرض کفایہ اور فرض عین کہا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس علم کی مطلق مذمت یا تعریف کرنا غلطی ہے، اس جگہ اس کی تفصیل کا ہونا ضروری ہے مگر زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس میں زیادہ خوض وبحث نہ