کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 304
دکھائی دینے والی چیز اس کی رویت سے مخفی نہیں ہوتی، اگرچہ وہ باریک ہو، وہ کان اور کان میں سوراخِ گوش کا محتاج نہیں ہے اور نہ اسے حدقۂ چشم اور پلک ہی کی حاجت ہے، وہ دل کے بغیر جانتا ہے، ہاتھ کے بغیر پکڑتا ہے اور آلے کے بغیر پیدا کرتا ہے۔[1] کلام: اللہ تعالیٰ کلام ازلی کے ساتھ متکلم، آمر، ناہی، واعد اور متوعد ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے نہ کہ ایسی آواز کے ساتھ جو اجرام کے باہم ٹکراؤ سے پیدا ہو کر اس سے نکلی ہو اور نہ ایسے حروف کے ساتھ جو ہونٹوں کے ملنے اور زبان کے ہلانے سے منقطع ہو۔[2] قرآن، تورات، انجیل اور زبور اس کی کتابیں ہیں، جو اس نے اتاری ہیں۔ قرآن قدیم ہے اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، وہ اس سے جدا ہے، نہ دل اور ورق کی طرف منتقل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان سے مقروء، مصحف میں مکتوب اور دل میں محفوظ ہے۔ موسی علیہ السلام نے صوت وحرف کے بغیر اس کا کلام سنا، جس طرح اس کی ذات جوہر اور عرض کے بغیر دکھائی دے گی۔[3] افعال: اللہ کے سوا جو کوئی موجود ہے، اسے اللہ ہی نے اکمل وجوہ پر ایجاد کیا ہے، جبکہ وہ پہلے کوئی چیز نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں حکیم اور اپنے فیصلوں میں عادل ہے، اس کی طرف سے ظلم کا تصور نہیں ہے کیوں کہ کسی غیر کی کچھ ملکیت نہیں ہے کہ اس میں تصرف کرنے سے ظلم ہو۔ اس نے جس کسی چیز کو ایجاد کیا ہے، اسے اظہارِ قدرت اور تحقیقِ ارادہ کے لیے ایجاد کیا ہے نہ اس لیے کہ وہ اس کا محتاج تھا، یہ ایجاد اس کا کرم ہے، اس پر واجب نہیں ہے۔ اسی کے لیے فضل واحسان ہے، کیوں کہ
[1] یہ ٹھیک ہے، لیکن صفت ’’اُذُن‘‘ اور ’’یَدْ‘‘ کسی تشبیہ اور تمثیل کے بغیر ثابت ہے۔ اس عبارت سے صفتِ ید اور اذن کی نفی کی بو آتی ہے، لہٰذا اس عبارت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ] [2] اس تقریر میں ہوا اور شفتین کے انسلال [پھسلنے] کی قید کے ساتھ حرف و صوت کی نفی ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ حرف وصوت تو موجود ہے لیکن ہمارے جیسا صوت وحرف نہیں۔ یہ عقیدہ اس معنی میں تو صحیح ہے، لیکن اگر اس سے مطلقاً حرف وصوت کی نفی مقصود ہے تو یہ سنتِ صحیحہ مطہرہ کے بالکل خلاف ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ] [3] کسی آیت یا حدیث میں یہ تصریح آئی ہے نہ ہمیں اس میں خوض کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے صرف اتنی بات پر ایمان لانا ہی کافی ہے جو فرمانِ باری تعالیٰ میں ہے: ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا﴾[النساء: ۱۶۴] [اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا] [مولف رحمہ اللہ ]