کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 297
یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ آخرت میں جنتی ہیں یا جہنمی؟ تو یہ قطعی طور پر لازم نہیں ہے۔ بعض دلائل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مومنوں کی اولاد مومنوں کے ساتھ ہی ملا دی جائے گی۔ إن شاء اللّٰہ تعالیٰ 16۔ جس کی موت جس وقت پر مقدر ہو چکی ہے اس سے تاخیر ہوتی ہے نہ تقدیم۔ ہر شخص اپنا رزق پورا کر لیتا ہے۔ حلال اور حرام دونوں رزق ہیں، اگرچہ ایک جائز اور دوسرا ناجائز ہوتا ہے۔ حلال کا حساب، حرام پر عذاب اور مشتبہ پر عتاب ہو گا۔ 17۔ ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث دونوں سے یہ بات ثابت ہے۔ ایمان تصدیقِ قلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا نام ہے اور یہی قول راجح اور صحیح ہے۔ ایمان میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہنا تبرک کے لیے ہوتا ہے نہ کہ شک کے لیے۔ 18۔ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے سے مومن ایمان سے باہر ہوتا ہے نہ وہ آگ میں ہمیشہ رہنے والا ہے، چنانچہ سارے صحابہ، تابعین، ان کے اَتباع ائمہ مجتہدین اور تمام اہلِ سنت و جماعت اسی عقیدے پر گزرے ہیں۔ توبہ سے کبیرہ گناہ بخش دیا جاتا ہے، جب اس کی شرائط کمال طریقے سے ادا ہوتی ہیں۔ اگر اللہ چاہے تو توبہ کے بغیر خرق عادت کے طور پر بھی کسی کو بخش دے۔ ہمیشہ آگ میں رہنا شرک اور کفر کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کبائر کی شفاعت کریں گے۔ باطن کے کبائر ساٹھ(۶۰) ہیں اور ظاہر کے چار سو ایک(۴۰۱)۔ اللّٰهم احفظنا عنھا بمنک وکرمک۔ 19۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کبائر کے مرتکبین کے حق میں شفاعت قرآن وحدیث دونوں سے ثابت ہے، مقام محمود اسی مرتبہ سے عبارت ہے، جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ مومن ہمیشہ آگ میں رہیں گے تو یہ باطل ہے۔ ہاں اگر ایمان کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا گیا تو اس شرک کی وجہ سے خلود ہو گا کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے نہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾[یوسف: ۱۰۶] [اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں]