کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 296
قریب ہیں، جو رسالہ ’’القائد إلی العقائد‘‘ اور اس کے ترجمے ’’سائق العباد إلی صحۃ الاعتقاد‘‘ میں لکھی گئی ہیں۔ کسی آیت یا حدیث سے ہر صفت کی دلیل کتاب ’’الجوائز والصلات من جمع الأسامي والصفات‘‘ میں مذکور ہے۔ یہ سب اس کی ذات بابرکات کی صفات ہیں جو کتابِ عزیز اور سنتِ مطہرہ سے ثابت ہیں، چنانچہ ان سب پر بلا تکییف و تاویل ایمان لانا فرض ہے۔ ان صفات کا منکر کافر اور ان کی تاویل کرنے والا خطا کار ہے۔
7۔ خلق ایک صفت فعل ہے۔
8۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یہ مخلوق نہیں ہے۔ جو معتزلہ کی مانند اسے مخلوق کہے وہ کافر ہے۔
9۔ رحمٰن کا عرش پر استوا قرآن وحدیث دونوں سے بہ خوبی ثابت ہے۔ صفتِ استوا کے اثبات پر آیات و احادیث محکمات ہیں، متشابہات نہیں ہیں۔
10۔ آخرت میں سر کی آنکھ کے ساتھ اللہ عزوجل کی رویت ثابت ہے۔ قرآن وحدیث دونوں اس پردلیل اور شاہد ہیں۔ رویت کا منکر کافر ہے۔ رویت کی حدیث صحیحین اور سنن میں وارد ہوئی ہے۔
11۔ تقدیر پر ایمان لانا واجب ہے، یعنی اب تک عالم میں جو کچھ ہوا اور ابد تک جو کچھ ہو گا، وہ خیر ہو یا شر وغیرہ، وہ سب کچھ اللہ کی تقدیر سے ہے۔ فرقہ قدریہ کے لوگ تقدیر کے منکر ہیں، اسی لیے سلف نے ان کو کافر قرار دیا ہے۔
12۔ بندوں کے تمام افعال وغیرہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، خواہ وہ فعل خیر ہو یا شر یا اور کچھ، جو کوئی اس کا منکر ہے، اس کا ایمان میں کچھ حصہ نہیں ہے۔
13۔ بندوں کا ہادی اور انھیں گمراہ کرنے والا بندوں کا خالق [اللہ] ہی ہے، وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔
14۔ بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کی مشیت سے واقع ہوتے ہیں خواہ وہ اچھے ہوں یا برے۔ کوئی شخص اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ کبار صحابہ، تابعین، فقہاے سلف اور صدر اوّل کے لوگ اسی عقیدے پر گزرے ہیں کہ اعمال کا وقوع اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت سے ہوتا ہے۔
15۔ بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں، یعنی توحیدِ خالص پر، پھر ان کے ماں باپ انھیں یہودی یا نصرانی