کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 295
قادر، مرید، سمیع، بصیر اور متکلم۔ اس قسم میں اسم کو نہ عین مسمی کہتے ہیں اور نہ غیر مسمی۔
رہی اس کی وہ صفات جو کتاب وسنت سے بطور سمع ثابت ہیں، جیسے وجہ، یدین اور عین وغیرہ، تویہ بھی اس کی ذات سے قائم ہیں، اس میں بھی اسم کو مسمی یا غیر مسمی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس جگہ تکییف، تمثیل، تشبیہ، تعطیل اور اہمال جائز نہیں ہے، بلکہ جس طرح یہ صفات وارد ہوئی ہیں، اسی طرح ان کا ظاہر پر بلا تاویل اجرا و اقرار کرنا چاہیے۔ انسان یہ اعتقاد کرے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی مشابہت سے منزہ اور پاک ہے۔ فرمانِ الٰہی سے تشبیہ کا بہ خوبی علاج ہو سکتا ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں] اور ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾[الإخلاص: ۴] [اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے] امت کے سلف اور ملت کے ائمہ کرام اسی عقیدے پر گزرے ہیں۔ خلف نے لزوم تشبیہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے تاویل کا راستہ اپنایا ہے جو ٹھیک نہیں ہے، کیوں کہ اللہ نے ہم پر ان کی تاویل کرنا واجب نہیں کیا ہے۔
باقی رہی صفاتِ فعل تو وہ اس کے افعال سے مشتق ہیں، جیسے خالق، رازق، محی، ممیت، منعم اور مفضل۔ اس جگہ اگر یہ اللہ کی طرف سے تسمیہ ہے تو یہ صفت اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، یہاںمسمی اور غیر مسمی کی گنجایش نہیں ہے اور اگر یہ تسمیہ مخلوق کی طرف سے ہے تو یہ صفتِ فعل ہے، متقدمین کا کلام اسی پر دلیل ہے۔
4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے نام خود قرآن مجید میں ذکر فرمائے ہیں اور احادیث میں بھی ان کا بیان آیا ہے، جیسے علی، عظیم، کبیر، غنی، حمید، اوّل، آخر، ظاہر، باطن احد، صمد، حق، مبین، مجید، واحد، قہار، نصیر، ملک، قدوس، سلام، مومن، مہیمن، عزیز، جبار، متکبر اور ذوالجلال والاکرام وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفاتِ کمال کا ثابت کرنا واجب ہے۔ نیز انسان کو چاہیے کہ وہ ہر نقصان اور عیب کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے دور کرے۔
5۔ آیات و احادیث میں ایسی صفات بھی بیان ہوئی ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، جیسے ھو الحي القیوم، اس سے حیات کا ثبوت ملتا ہے۔ نیز جیسے قدرت، علم، قوت، ارادہ، مشیت، سمع، بصر، کلام اور بقا۔
6۔ قرآن وحدیث میں صفتِ وجہ، یدین اور عین وغیرہ کو ثابت کیا گیا ہے، یہ صفات چونسٹھ کے