کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 294
پانچویں فصل
امام احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ کے عقائد کا بیان[1]
اس کتاب میں دلائل کا ذکر کرتے ہوئے ہر عقیدے کے لیے الگ مستقل تحریر لکھی گئی ہے۔ اس جگہ دلائل کو چھوڑ کر اعتقاد کے نفس مسائل پر اقتصار و اکتفا کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر دلائل دریافت کرنے ہوں تو ہماری کتاب ’’حضرات التجلي من نفحات التجلي والتخلي‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، و اللّٰہ المستعان!
بندے پر سب سے پہلے اللہ کا پہچاننا اور اس کا اقرار کرنا واجب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ﴾[محمد: ۱۹]
[پس جان لے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے عدمِ اقرار پر جہاد وقتال کیا تھا۔ موت کے وقت جس شخص کا یہ آخری کلام ہوتا ہے، اس کے لیے دخولِ جنت کا وعدہ ہے، بلکہ اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے یہ کلمہ منہ سے نہ بھی نکلے مگر وہ اس کلمے کو دل سے جانتا اور مانتا ہو تو بھی وہ جنتی ہوتا ہے، وللّٰہ الحمد۔
2۔ عالم حادث ہے قدیم نہیں ہے، سارے جہان کا ایجاد کنندہ اور مدبر ایک الٰہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حدوثِ عالم اور صانعِ عالم کا منکر کافر ہوتا ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کے اسماے علیا اور صفاتِ حسنیٰ ثابت ہیں۔ اس کی یہ صفات صفتِ ذات اور صفتِ فعل کی طرف تقسیم ہوتی ہیں۔ اسماے ذات کواسماے فعل پر فضیلت حاصل ہے۔ صفتِ ذات وہ ہے جس کا وہ ازل میں مستحق تھا اور ابد تک اس کا استحقاق رکھتا ہے، جیسے کہ وہ موجود قدیم ہے، یہ سارا ملک اسی کا ہے، وہ قدوس، جلیل، عظیم، عزیز اور متکبر ہے۔ اس قسم میں اسم اور مسمّیٰ ایک ہوتا ہے۔ دوسری قسم ان صفات کی ہے جو اس کی ذاتِ پاک کے ساتھ قائم ہیں، جیسے حی، عالم،
[1] یہ مبحث امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاعتقاد والھدایۃ إلی سبیل الرشاد‘‘ پر مشتمل ہے۔