کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 292
طرح وہ خبریں جو آخرت میں واقع ہوں گی جیسے سوالِ قبر، ثواب، عقاب، حشر، معاد، میزان، صراط اور جماعتوں کا اس صورت میں تقسیم ہونا کہ ایک جماعت جنت میں اور ایک جہنم میں یہ حق ہے۔ ان پر ایمان لانا اور اقرار کرنا واجب ہے۔
امامت اتفاق واختیار کرنے سے ثابت ہوتی ہے اس کا نص اور کسی معین شخص کی تعیین سے ثابت ہونا ضروری نہیں۔ ائمہ کی فضیلت کی ترتیب امامت کی ترتیب کے مطابق ہے۔ عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے حق میں ہمارا قول یہ ہے کہ انھوں نے اپنی خطا اور غلطی سے رجوع کیا۔ ہم طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہماکو عشرہ مبشرہ میں سے شمار کرتے ہیں۔ ہمارا قول ہے کہ معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے امام حق علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف ویسے ہی قتال کیا جیسے باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اہلِ نہروان، دین سے خارج ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ سب احوال میں حق پر تھے اور حق ان کے ساتھ تھا۔
مقریزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ اشعری کے اصول دین اور عقائد کا خلاصہ ہے جو اس وقت تمام علاقوں کے لوگوں کا نظریہ و اعتقاد ہے اور جس نے کھلم کھلا اس عقیدے کی مخالفت کی اس کا خون بہایا گیا۔
اشاعرہ کو ’’صفاتیہ‘‘ بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہ صفاتِ الٰہیہ قدیمہ کو ثابت کرنے والے ہیں۔ پھر ان الفاظ میں جو کتاب وسنت میں وارد ہوئے ہیں جیسے استوا، نزول، اصبع، ید، قدم، صورت، جنب، مجی، وہ باہم اختلاف کا شکار ہو کر دو فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک فرقہ ان سب الفاظ کی ممکنہ تاویلات کرتا ہے اور دوسرا فرقہ تاویل کے درپے ہوتا ہے نہ تشبیہ کی طرف جاتا ہے، انھیں اشعریہ اثریہ کہتے ہیں۔ اب اس کے متعلق مسلمانوں کے پانچ اقوال ہیں۔ ایک اس چیز کا اعتقاد کرنا جو اس کے مانند لغت سے سمجھا جاتا ہے، دوسرے مطلق سکوت کرنا۔ تیسرے ارادہ ظاہر کی نفی کے بعد سکوت کرنا۔ چوتھے مجاز پر محمول کرنا۔ پانچویں اسے اشتراک پر محمول کرنا۔ ان میں سے ہر فریق کے دلائل اور حجتیں ہیں اور اصول دین کی کتابیں انھیں دلائل پر مشتمل ہیں۔
﴿ وَ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ * اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ﴾[1]
[ھود: ۱۱۸،۱۱۹ ]
[1] المواعظ والاعتبار للمقریزي (۳/۱۰۶)