کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 290
اور عبارت اس پر دلیل ہے جو نفس کے اندر ہے، عبارت کو مجازاً کلام کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کے اندر ہونے والے خیر وشر اور نفع وضرر کا ارادہ کیا ہے۔ امام اشعری کا رجحان جوازِ تکلیف مالا یطاق کی طرف ہے، کیونکہ اشعری نے یوں کہا ہے کہ استطاعت فعل کے ہمراہ ہوتی ہے[1] اور انسان فعل سے قبل مکلف ہے، حالانکہ وہ فعل سے پہلے ان کے مذہب کے مطابق مستطیع نہیں ہے۔
بندوں کے سارے افعال مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا موجد ہے، بندے کاسب ہیں۔[2] کسبِ فعل بندے کی قدرت سے وابستہ قوتِ کار سے عبارت ہے اور خالق حقیقتاً اللہ ہی ہے۔ مخلوق میں کوئی غیر اس کا شریک نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا سب سے خصوصی وصف قدرت اور اختراع ہے۔ یہی اس کے نام ’’باری‘‘ کی تفسیر ہے۔ ہر موجود چیز کا دکھائی دینا صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ موجود ہے لہٰذا اس کی رویت صحیح ہے۔ دلیل سمعی سے ثابت ہے کہ مومن اسے آخرت میں دیکھیں گے۔ یہ دلیل کتاب وسنت میں موجود ہے، ہاں یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مکان یا صورت یا مقابلہ واتصال شعاع سے دکھائی دے، کیونکہ یہ سب محال ہے۔[3] رویت کی ماہیت میں دو رائیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایک مخصوص علم ہے جس کا تعلق وجود سے ہے نہ کہ عدم سے۔ دوسری یہ کہ یہ ماوراے علم کے ایک ادراک ہے۔ سمع وبصر دو ازلی صفتیں ہیں اور ماوراے علم کے دو ادراک ہیں۔ یدین اور وجہ صفات خبریہ ہیں۔ ان کی دلیل سمع وارد ہے اور ان کا اعتراف کرنا واجب ہے۔ معتزلہ نے وعد و وعید اور سمع و عقل میں ہر وجہ سے اختلاف کیا ہے۔
دل کی تصدیق اور زبان کے قول کو ایمان کہتے ہیں۔ ارکان اور اعضا سے عمل کرنا ایمان کی فرع ہے۔[4] جس نے دل سے تصدیق کی، یعنی وحدانیتِ الٰہی کا اقرار کیا اور سچے دل سے رسولوں کا
[1] اس سے متعلق کلام گزر چکا ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ]
[2] اس لفظ کی صحتِ اطلاق میں بحث کی گنجایش ہے، اگرچہ اہلِ سنت کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ]
[3] اس میں خوض کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، صرف اللہ تعالیٰ کی مراد کے مطابق وقوعِ رویت پر ایمان لانا ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ]
[4] یعنی عمل ایمان میں داخل نہیں ہے۔ اس پر کلام گزر چکا ہے۔ اہلِ حدیث کے نزدیک ایمان اقرارِ لسان، تصدیق بالجنان اور عمل بالارکان سے عبارت ہے اور کتاب و سنت کا ظاہر بھی اسی پر ناطق ہے۔ واللّٰه اعلم۔ [مولف رحمہ اللہ ]