کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 289
چوتھی فصل مقریزی کی کتاب ’’المواعظ والاعتبار في ذکر الخطط والآثار‘‘ کے مطابق ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے عقیدے کا بیان اللہ تعالیٰ علم کے ساتھ عالم، قدرت کے ساتھ قادر، حیات کے ساتھ حی، ارادے کے ساتھ مرید، کلام کے ساتھ متکلم، سمع کے ساتھ سمیع اور بصر کے ساتھ بصیر ہے۔ اس کی صفات ازلی ہیں جو قائم بالذات ہیں، ان کے متعلق نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ عین ہیں، نہ یہ کہ وہ غیر ہیں، اور نہ یہ کہ وہ عین نہیں ہیں اور غیر بھی نہیں ہیں۔[1] اس کا علم ایک ہے جو ساری معلومات کے ساتھ متعلق ہے۔ اس کی قدرت ایک ہے جو تمام ان چیزوں کے ساتھ متعلق ہے جن کا وجود صحیح ہے۔ اس کا ارادہ ایک ہے جو ان تمام اشیا سے متعلق ہے جو قابل اختصاص ہیں۔ اس کا کلام ایک ہے جو اس کا امر ہے، نہی ہے، خبر ہے، استخبار ہے، وعد ہے اور وعید ہے۔ یہ سب وجوہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے مختلف اعتبارات ہیں نہ کہ نفس کلام ایسا ہے۔ وہ الفاظ جوملائکہ کی زبانی انبیاءعلیہم السلام کی طرف نازل ہوئے وہ ازلی کلام پر دلالت کرنے والے ہیں۔[2] لہٰذا مدلول یعنی قرآن مقروء قدیم ازلی ہے اور دلالت یعنی عبارات اور قرائت تو وہ مخلوق و محدث ہے۔[3] قرائت و مقروء میں اور تلاوت و متلو میں فرق ہے جس طرح کہ ذکر اور مذکور کے درمیان فرق ہے۔ کلام ایک معنی قائم بالنفس ہے[4]
[1] سلف نے اس میں بحث نہیں کی اور کتاب و سنت اس سے خاموش ہیں، لہٰذا ایسی بحث کو چھوڑنا ہی اولیٰ ہے۔[مولف رحمہ اللہ ] [2] اشاعرہ کا یہ عقیدہ درست نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ [3] سلف نے اس بارے میں کلام نہیں کیا، یہ تو صرف اہلِ کلام کی بحث ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ] [4] یعنی اللہ تعالیٰ کا کلام حرف و صوت کے بغیر محض کلامِ نفسی ہے، لیکن یہ بات ظاہرِ حدیث کے خلاف ہے۔ کتاب وسنت سے اس کلام نفسی کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ شعرا کے کلام میں اس کا ذکر ملتا ہے اور شعرا سے متعلق فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاؤنَ﴾ [الشعراء: ۲۲۴] [مولف رحمہ اللہ ]