کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 286
﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ﴾[الروم: ۴۰] [اللہ وہ ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، پھر تمھیں رزق دیا، پھر تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا] 8۔ کمانا حلال ہے، حلال کا جمع کرنا حلال ہے اور حرام مال کا جمع کرنا حرام ہے۔ 9۔ مخلوق کی تین قسمیں ہیں۔ ایک مومن جو اپنے ایمان میں مخلص ہیں۔ دوسرے کافر جو اپنے کفر میں منکر ہیں۔ تیسرے منافق جو اپنے نفاق میں مداہن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مومن پر عمل، کافر پر ایمان اور منافق پر اخلاص کو فرض کیا ہے۔ جیسے اس کا فرمان ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ﴾[البقرۃ: ۲۱] [اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو] اس کے یہ معنی ہوئے کہ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اے کافرو! ایمان لاؤ اور اے منافقو! اخلاص اپناؤ۔ 10۔ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ استطاعت فعل کے ہمراہ ہوتی ہے،[1] وہ فعل سے قبل ہوتی ہے اور نہ فعل کے بعد، کیوں کہ اگر وہ فعل سے قبل ہوتی تو بندہ فعل کے وقت اللہ تعالیٰ سے مستغنی ہوتا اور یہ خلاف نص ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ﴾[محمد: ۳۸] [اور اللہ ہی بے پروا ہے اور تم ہی محتاج ہو] اور اگر فعل کے بعد یہ استطاعت ہوتی تو بلا استطاعت فعل کا حصول محال ہوتا۔ 11۔ ہمیں اس بات کابھی اقرار ہے کہ مقیم کے لیے ایک رات دن اور مسافر کے لیے تین رات دن موزوں پر مسح کرنا واجب ہے، کیوں کہ حدیث اسی طرح آئی ہے۔ مسح کے منکر پر کفر کا ڈر ہے، کیونکہ یہ مسح خبر متواتر سے ثابت ہے۔ سفر میں قصر اور افطار نصِ کتاب کے مطابق رخصت ہے۔[2] فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ﴾ [النسائ: ۱۰۱] [اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کر لو]
[1] کتاب و سنت اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ [مولف رحمہ اللہ ] [2] رخصت و عزیمت کی بابت اس میں بحث کی گنجایش ہے۔ اس کی تفصیل جاننے کے لیے قاضی شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’نیل الاوطار‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ [مولف رحمہ اللہ ]