کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 284
میں کوئی شک نہیں ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾[النسائ: ۱۵۱] [یہی لوگ حقیقی کافر ہیں] ﴿ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا﴾[الأنفال: ۴] [یہی لوگ سچے مومن ہیں] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے نافرمان سب کے سب سچے مومن ہیں، کافر نہیں ہیں۔ 2۔ عمل غیر ایمان اور ایمان غیر عمل ہے۔[1] اس کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اوقات مومن سے عمل مرتفع ہو جاتا ہے اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اس سے ایمان مرتفع ہو گیا، کیوں کہ حائضہ سے نماز مرتفع ہو جاتی ہے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے ایمان اٹھ گیا یا ترکِ ایمان کے سبب اس کے لیے نماز کی تاخیر کی گئی، حالانکہ شرع نے اس سے یہ کہا ہے: (( دَعِيْ الصَّوْمَ ثُمَّ اقْضِیْہِ )) [روزہ چھوڑ دو پھر اس کی قضا کرو] اور یہ کہنا جائز نہیں ہے: ’’دعي الإیمان، ثم اقضیہ‘‘ [ایمان چھوڑ دو، پھر اس کی قضا کرو] یہ کہہ سکتے ہیں کہ فقیر پر زکات واجب نہیں ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ فقیر پر ایمان لانا واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی یوں کہے کہ اچھی اور بری تقدیر غیر اللہ کی طرف سے ہے تو وہ کافر ہو جائے گا اور اس کی توحید باطل ہو جائے گی۔ 3۔ ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ اعمال تین طرح کے ہیں: ایک فریضہ، دوسرے فضیلت اور تیسرے معصیت، جہاں تک فریضے کا تعلق ہے تو وہ اللہ کے امر، مشیت، محبت، رضا و قضا، تقدیر، ارادے، حکم، علم اور لوح محفوظ کی کتابت سے ہوتا ہے۔ فضیلت اگرچہ امرِ الٰہی سے نہیں ہے لیکن اس کی مشیت ومحبت، رضا وقضا، تقدیر و توفیق، تخلیق، ارادہ وحکم اور علم وکتابت لوح محفوظ سے ہے۔ معصیت اللہ کے حکم سے نہیں ہے، یہ اس کی مشیت سے تو ہوتی ہے لیکن محبت سے نہیں، اس کی قضا سے ہوتی ہے لیکن رضا سے نہیں، اس کی تقدیر وتخلیق سے ہوتی ہے لیکن اس کی توفیق گناہ میں شامل نہیں ہوتی، اسی طرح معصیت میں اللہ تعالیٰ کی عدم توفیق شامل ہوتی ہے۔ اس پر پکڑ ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اللہ کے علم میں ہے اور لوح محفوظ کے اندر لکھی ہوئی ہے۔ 4۔ ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے بغیر اس کے کہ اللہ کو اس کی
[1] لیکن کتاب و سنت کے ظاہر سے عمل کا ایمان میں داخل ہونا پایا جاتا ہے، اگرچہ اس بارے میں علماے دین کے اقوال مختلف ہیں۔[مولف رحمہ اللہ ]