کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 280
کرے اور چاہے تو اسے معاف کر دے، لیکن اسے ہمیشہ کے لیے آگ میں عذاب نہیں دے گا۔ 9۔ جب کسی عمل میں ریا کاری آ جاتی ہے تو اس کا اجر باطل کر دیتی ہے اور یہی حال خود پسندی کا ہے۔ پیغمبروں کے معجزات اور ولیوں کی کرامات حق ہیں۔ جو کام اللہ کے دشمنوں سے سرزد ہوتے ہیں جیسے ابلیس، فرعون اور دجال، جیسے بعض اخبار میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایسے کام ہوں گے تو انھیں ہم آیات یعنی معجزات اور کرامات نہیں کہتے، بلکہ ہم ان کا نام قضاے حاجات رکھتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کی حاجتوں کو بھی بطور استدراج اور آخرت میں ان کے لیے بطور عقوبت اور سزا کے پورا کرتا ہے۔ وہ اس فریب میں آ کر اور زیادہ طغیان و کفر کرنے لگتے ہیں، بہر حال یہ سب ممکن اور جائز ہے۔ 10۔ اللہ تعالیٰ تخلیق اور ترزیق سے پہلے خالق اور رازق تھا۔ آخرت میں اس کی رویت اور دیدار ہو گا۔ مومن اسے جنت میں اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ بلاتشبیہ اور کیفیت کے دیکھیں گے، اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان کوئی مسافت نہ ہو گی۔ 11۔ ایمان اقرار اور تصدیق کا نام ہے۔ آسمان وزمین والوں کا ایمان کم اور زیادہ نہیں ہوتا ہے۔[1] تمام ایمان والے ایمان اور توحید میں برابر ہیں اور اعمال میں کم اور زیادہ۔[2] اللہ کے اوامر کو مان لینے اور بجا لانے کو اسلام کہتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے تو ایمان اور اسلام میں فرق ہے لیکن بغیر اسلام کے ایمان نہیں ہوتا اور نہ ایمان کے بغیر اسلام پایا جاتا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں وہی تعلق ہے جو پشت کا پیٹ کے ساتھ۔ اور دین ایک ایسا نام ہے جو ایمان، اسلام اور سارے شرائع پر بولا جاتا ہے۔ 12۔ ہم اللہ تعالیٰ کو ویسا ہی پہچانتے ہیں جیسے اس کے شایانِ شان ہے اور جس طرح اس نے اپنے
[1] امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (ابو حاتم رازی) اور ابو زرعہ سے اصولِ دین میں اہلِ سنت کے عقائد سے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’أدرکنا العلماء في جمیع الأمصار حجازاً و عراقاً وشاماً ویمناً فکان من مذھبہم: الإیمان قول و عمل، یزید وینقص‘‘ (أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائي: ۱/۱۷۶) [2] ایمان میں کمی بیشی کتاب و سنت سے ثابت ہے، پھر اس کا انکار کیا معنی رکھتا ہے۔ بعض اہلِ علم نے اسے نزاعِ لفظی کی طرف راجع کیا ہے۔ ہمارا ایمان اور ابو بکر رضی اللہ عنہ و جبریل علیہ اسلام کا ایمان برابر نہیں ہے۔ [مولف رحمہ اللہ ]