کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 279
خالق ہے۔ یہ سارے اعمال اسی کی مشیت، علم اور قضا وقدر سے ہوتے ہیں۔ جتنی بھی طاعات ہیں، تھوڑی ہوں یا زیادہ، وہ سب اللہ کے امر، اس کی محبت ورضا، مشیت اور قدروقضا سے ہوتی ہیں۔ جتنی بھی معاصی ہیں وہ سب بھی اسی کی قضا و قدر اور مشیت سے ہوتی ہیں لیکن ان میں اس کی محبت ورضا شامل نہیں ہوتیں۔
6۔ تمام انبیاء علیہم السلام صغائر، کفر اور اعمال بد سے پاک صاف ہیں۔ ہاں! ان سے معمولی کو تاہیاں اور لغزشیاں ہوئیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حبیب، اس کے بندے، اس کے رسول، نبی، برگزیدہ اور پاک صاف ہیں۔ انھوں نے پلک جھپکنے کے وقت کے برابر بھی کبھی بت پرستی کی نہ اللہ کے ساتھ شرک کیا اور نہ کبھی کسی صغیرہ اور کبیرہ گناہ کے مرتکب ہی ہوئے۔
7۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ تمام حق کا ساتھ دینے والے اور اسی پر قائم رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بجا لانے والے تھے۔ ہم ان سب سے محبت کرتے ہیں۔ اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہر کسی کا خیر کے ساتھ ہی ذکر کرتے ہیں۔ کسی مسلمان کو کسی گناہ کے سبب کافر نہیں کہتے، اگرچہ وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ اس کو حلال نہیں جانتا ہے۔ ہم اس سے ایمان کا وصف علاحدہ نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقتاً مومن کہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ مومن فاسق ہو نہ کہ کافر۔
8۔ موزوں پر مسح کرنا سنت ہے۔ ہر نیک وبد مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ گناہ [آخرت میں] مومن کے لیے ضرر رساں نہیں ہے، نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ آگ میں نہ جائے گا اور نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ آگ میں رہے گا، اگرچہ وہ فاسق ہو، بشرطے کہ اس نے مسلمان ہو کر دنیا کو خیر باد کہا ہو۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ہماری نیکیاں مقبول ہیں اور ہمارے گناہ معاف ہیں جس طرح مرجیہ کا عقیدہ ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو شخص پوری شرائط کے ساتھ خرابیوں سے پاک صاف ہو کر نیک کام کرے گا، انھیں باطل نہ کرے گا حتی کہ ایمان کی حالت میں دنیا سے اٹھ جائے گا تو اللہ اس کی نیکیوں کو برباد نہ کرے گا بلکہ انھیں قبول کرکے ان پر ثواب عطا فرمائے گا۔ جو گناہ شرک سے چھوٹا ہو گا اور گناہ گار نے اس سے توبہ نہ کی ہو گی یہاں تک کہ وہ اللہ کی مشیت میں مومن ہو کر فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے، چاہے اسے عذاب