کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 275
ایسے ہی ان کے کلام میں ۹۵۰ھ کے بعد والے صوفیاے اہلِ اتحاد سے جو منع کیا گیا ہے یہ بھی درست ہے، کیونکہ وحدتِ وجود کی بلا اسی سال سے زیادہ شائع اور عام ہوئی ہے اور ہر جولاہا اپنے آپ کو صاحبِ معراج سمجھتا ہے، تو پھر اس کے بعد سے لے کر زمانہ حال تک کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو ان کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کرنے سے احتراز کرنا چاہیے جو ہند کے اہلِ بدعت نے تالیف کی ہیں۔ ان کتب اور رسائل میں علم کی قلت، فہم کا فقدان، استدلال کا معدوم ہونا اور استنباط کی کیفیت کے انعدام کے ساتھ ساتھ اکابرِ دین کے حق میں کثرت سے سب وشتم کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ان تالیفات سے بچنا چاہیے جو جاہل مریدوں نے کراماتِ اولیا میں لکھی ہیں، یا دہریہ نے عقائدِ اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے رواج دی ہیں، یا اہلِ طبائع نے اسلام کے پیرائے میں ظاہر کی ہیں، یا بادشاہوں کو نصیحتیں کرنے والوں نے دنیا حاصل کرنے کی خاطر تیار کی ہیں۔ اردو زبان میں اس طرح کی کتابیں اور رسائل فی الحال جابجا اس ملک کے عوام و خواص میں عام ہو رہی ہیں۔ وکان ذلک في الکتاب مسطورا۔ اسی کے ذیل میں شعرانی رحمہ اللہ نے بعض کفریہ کلمات کا بھی ذکر کیا ہے جن کا زیادہ تر تعلق شطحیاتِ صوفیہ سے ہے، اس رسالے کے خاتمے پر ہم وہ کلمات نقل کریں گے، تا کہ صحیح العقیدہ مومن ان الفاظ اور عبارات کے استعمال سے احتراز کرے اور اپنے برحق عقائد کے بچاؤ کو اپنے پیش نظر رکھے۔ و اللّٰہ الھادي وعلیہ اعتمادي وإلیہ استنادي۔ ٭٭٭