کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 273
کا مطالعہ قابل احتراز ہے، کیونکہ ان کی کتابوں میں ایسی چیزیں ہیں جو حلول، اتحاد، تشبیہ اور اقوال ملحدین کا وہم ڈالتی ہیں۔ بعض [اہلِ علم] نے سیدی عمر بن الفارض کے قصیدہ تائیہ میں کیے گئے کلام کو سننے سے منع کیا ہے جبکہ جمہور اہلِ علم تاویل کے ساتھ اس کے جواز کے قائل ہیں۔‘‘[1] میں کہتا ہوں: ظاہرِ شریعت سے بچانے کے لیے مذکورہ بالا کتابوں کا مطالعہ کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہ کتابیں شروع سے آخر تک تمام کی تمام قابل احتراز نہیں ہیں، بلکہ کسی کتاب کی بعض جگہیں اور کسی کتاب کی اکثر جگہیں لائق احتراز ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’إحیاء العلوم‘‘ میں چار عنوان فاسد اور خراب ہیں اور وہ ہیں: فلسفیت، احادیث موضوعہ اور مسائل کلامیہ وغیرہ۔ لیکن شیخ محمد تستری رحمہ اللہ نے ’’إحیاء العلوم‘‘ کو اس فاسد مواد سے پاک کر کے پوری کتاب کے چوتھائی حصے کے برابر خلاصہ نکال کر ’’إحیاء الإحیائ‘‘ کے نام سے خوب کتاب لکھی ہے۔ محمد بن حزم ظاہری امامِ علم و عمل تھے۔ ان کی کتابوں کی نسبت جو کچھ کہا گیا ہے وہ محلِ نظر اور محتاجِ نظر ہے۔ اکثر مقلدینِ مذاہب ان کے تقلید کو ترک کرنے اور اتباع کو ترجیح دینے کے سبب ان پر تنقید کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں بات ایسے نہیں ہے، اس کی وضاحت کسی اور جگہ ہو گی۔ اس کلام کو نقل کرنے کے بعد امام شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فھذہ عدۃ نصائح وتحذیرات فاعمل یا أخي بھا، وعلیک بمطالعۃ کتب الشریعۃ من حدیث و تفسیر وفقہ، والاقتداء بأئمۃ الدین من الصحابۃ والتابعین وتبع التابعین ومقلدیہم من الفقھاء والمتکلمین﴾، وإیاک والاجتماع بھؤلاء الجماعۃ الذین تظاھروا بطریق القوم في النصف الثاني من القرن العاشر من غیر إحکام قواعد الشریعۃ فإنہم ضلوا وأضلوا بمطالعتہم کتب توحید القوم من غیر معرفۃ مرادہم، وقد دخل عليّ منہم شخص وأنا مریض ولم یکن عندي أحد من الناس، فقلت لہ: من تکون؟ قال: أنا اللّٰہ ، فقلت لہ: کذبت! فقال: أنا محمد
[1] المختار من کتاب لحن العامۃ والخاصۃ في المعتقدات للإشبیلي (ص:۵۷)