کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 272
کتاب باون رسالوں پر مشتمل ہے جو مخریطی کی تالیف ہے۔ اہلِ علم نے ذکر کیا ہے کہ یقینا وہ ملحدین اور اسلام کا طریقہ چھوڑنے والے لوگوں میں سے تھا۔ اسی طرح ابراہیم النظام، ابن الراوندی اور معمر بن المثنی کے کلام کا مطالعہ کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ عبد الکریم الجیلی کے قصیدے کا مطالعہ بھی قابل احتراز ہے، اس قصیدے کا قافیہ عین مضمومہ ہے اور اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو: قطعت الوریٰ من نفس ذاتک قطعۃ وما أنت مقطوع ولا أنت قاطع [تو نے اپنی نفسِ ذات سے مخلوق کو کاٹ کر جدا کیا، نہ تو کاٹا ہوا ہے اور نہ ہی کاٹنے والا ہے] ’’یقینا اللہ تعالیٰ پر اس لفظ کا مطلق طور پر اطلاق کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز ابن قصی کی کتاب ’’خلع النعلین‘‘ کا مطالعہ نہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے ہی سیدی محمد وفا کے قصیدہ تائیہ سے پر حذر رہنا چاہیے۔ محمد بن حزم الظاہری کی کتابوں کے مطالعہ سے تو بہت ہی زیادہ گریز و پرہیز کرنا چاہیے، اگر ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہی ہو تو علوم شریعت میں پختگی حاصل کرنے کے بعد ہی ایسا کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ان کی وہ کتابیں قابل احتراز ہیں جو اصولِ دین، قواعدِ عقائد، معانی اور حقائق سے تعلق رکھتی ہیں، کیونکہ موصوف رحمہ اللہ کی ان علوم پر دسترس تو نہ تھی مگر انھوں نے اپنے ہی فہم سے ان پر ہاتھ ڈال لیا اور ان پر وہ کوئی کلام نہیں کر پائے۔ ’’اسی طرح المفید بن رشد کا کلام پڑھنے سے بچنا چاہیے کیونکہ عقیدے کے حوالے سے اس کا اکثر کلام فاسد ہے۔ نیز محی الدین بن عربی کی کتابوں کے مطالعہ سے بچنا چاہیے، کیوں کہ وہ کتابیں بہت بالا ہیں اور ان میں کچھ ایسا کلام بھی ہے جو شیخ کے ذمے لگایا گیا ہے۔ خاص طور پر ’’الفصوص‘‘ اور ’’الفتوحات المکیہ‘‘۔ شیخ ابو طاہر نے اپنے شیخ اور انھوں نے اپنے شیخ بدر الدین بن جماعۃ سے خبر دی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ شیخ محی الدین کی کتابوں میں علما کے کلام کے مخالف جتنی بھی باتیں ہیں وہ ان کے ذمے لگائی گئی ہیں، شیخ مجدالدین صاحب القاموس بھی یہی کہا کرتے تھے۔ ایسے ہی عبدالحق بن سبعین کی کتابوں