کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 261
تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ جان لیا تھا کہ مخلوق کے دلوں میں کیا خطرہ ہو گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے] عقائد کے بگاڑ میں اہلِ فارس (ایران) کا کردار: اکثر طوائف اور گروہوں کے دیانتِ اسلام سے نکلنے کا سبب یہ بنا کہ ملک فارس (ایران) بہت وسیع تھا، ان کا ہاتھ ساری امم کے اوپر تھا، وہ لوگ اپنے نفس میں نہایت درجے کے جلیل الخطراور عظیم القدر تھے، اسی لیے وہ اپنے آپ کو احرار و اسیاد اور باقی سب لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے۔ جب عرب کے ہاتھوں ان کی دولت و سلطنت زوال پذیر ہوئی، درآں حالے کہ وہ عرب ہی کو سب سے زیادہ کم حقیقت جانتے تھے، تو ان پر یہ امر نہایت گراں گزرا اور ان کے سر پر ایک سخت مصیبت آئی، چنانچہ انھوںنے چاہا کہ وہ اسلام کے ساتھ کید و مکر کی چال چلیں، اسی لیے وہ مختلف اوقات میں اس کے خلاف محاربہ اور لڑائی کرتے رہے، لیکن ہر جگہ اور ہر لڑائی میں اللہ تعالیٰ نے عرب اور حق کو غلبہ دیا۔ اہلِ فارس کے وہ بڑے بڑے سردار جو اسلام کے خلاف اس کارروائی میں ملوث ہوئے، وہ شفاد، اشنیس، مقفع اور بابک وغیرہ ہیں اور ان سب سے پہلے عمار ملقب بخداش اور ابو مسلم سروح نے اس کید و مکر کا قصد وارادہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ طے ہوا کہ لڑنے سے کچھ کام نہ بنے گا، بلکہ مکر و حیلے سے کام نکلے گا۔ اسی لیے وہ اہلِ بیت کی محبت کا اظہار کرنے لگے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مظلوم ٹھہرا کر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ پھر طرح طرح کی راہیں اور چالیں چل کر انھیں راہِ ہدایت سے گمراہ کر دیا۔ انھوں نے شیعہ کی ایک قوم کے حلق سے یہ بات اتار دی کہ ایک مرد کا انتظار ہے جسے مہدی کہتے ہیں، دین کی حقیقت کا علم اس کے پاس ہے اور کفار سے دین اخذ کرنا روا اور جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو [العیاذ باللّٰہ] کفر کی طرف منسوب کرتے تھے۔ انھوں نے ایک دوسری قوم کو اس پر لگا دیا کہ وہ لوگوں کے لیے مدعیِ نبوت بن بیٹھے اور ان نبوت کے دعوے داروں کے نام تک مقرر کر دیے۔ تیسری قوم کو حلول کا قائل بنا دیا اور شرائع کو ساقط