کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 259
مثلیت کی نفی کی۔ پس جب ان احادیث کے جوازِ نقل اور انھیں تشبیہ سے دور رکھنے پر سارے مسلمانوں کا اجماع ثابت ہے تو اللہ کی تعظیم میں اس سورت کے ذکر کرنے سے نفیِ تعطیل کے سوا کچھ باقی نہ رہا، کیونکہ رسولوں کے دشمنوں نے رب تعالیٰ کے ایسے نام رکھے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات علیا کی نفی ہوتی ہے، چنانچہ کفار کی ایک قوم نے کہا: رب نیچر ہے، دوسروں نے اسے علت قرار دیا اور انھوں نے اسماے الٰہی میں اس طرح کا بہت زیادہ الحاد کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی صفات علیا پر مشتمل یہ احادیث ارشاد فرمائیں اور اصحابِ ابرار نے ان اخبار کو نقل کیا، پھر ائمہ مسلمین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کو روایت کیا، یہاں تک کہ وہ احادیث ہم تک پہنچ گئیں۔ ہر شخص نے ان روایات کو جوں کا توں روایت کیا اور ان میں کسی چیز کی تاویل نہ کی، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کا عقیدہ یہ تھا: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [ یقینا اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے] اس سے ہماری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ ان احادیث سے، جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلم اور تلفظ کیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں تداول فرمایا اور امت کو پہنچایا، اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ کافروں کے دل میں نفرت ہو اور ہر گمراہ اور معطل مبتدع کے دل میں ان صفات کا غلبہ ہو، کیونکہ یہ لوگ اہلِ طبائع وغیرہ مبتدعہ کے آثار پر اکتفا کرنے والے ہیں، اسی لیے اللہ نے اپنی کتاب میں اپنے نفس کریم کا وصف بیان کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کا وصف بیان کیا ہے جو احادیثِ صحیحہ میں ثابت ہے۔ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ جب کسی مومن نے یہ اعتقاد کر لیا: ’’لیس کمثلہ شيء وھو السمیع البصیر وإنہ أحد صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً أحد‘‘ [اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے، اور بلاشبہہ وہ اکیلا ہے، بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے، نہ وہ جنم دیا گیا ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے] تو اس کا ان احادیث کو ذکر کرنا اثبات کو تقویت دینا ہے اور معطلہ کے اندر پھنس جانے والی ہڈی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’الإثبات أمکن‘‘ [اثبات زیادہ آسان اور ممکن ہے] امام