کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 257
پہنچا، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے]
میں [نواب صاحب رحمہ الله] کہتا ہوں: امام ابو الحسن اسماعیل بن اسحاق بن سالم اشعری رحمہ اللہ ابو موسی اشعری بصری رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔ وہ ۲۶۶ ھ یا ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور بغداد شہر میں وفات پائی۔
تخلیق انسانی کا مقصد اللہ کی معرفت ہے:
اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے اپنی معرفت اور شناخت طلب کی ہے جس کی دلیل اس کا یہ فرمان ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾[الذاریات: ۵۶]
[اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کہا ہے کہ مذکورہ آیت میں ﴿یَعْبُدُوْنَ﴾، ’’یَعْرِفُوْنَ‘‘ کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے شرائع کے ذریعے اپنی پہچان کروا دی۔ اب جس کے نصیب میں تھا اس نے اللہ کی تعریف کے مطابق اس کی معرفت حاصل کی۔ انبیا کی بعثت اور شرائع کے انزال سے پہلے مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ علم کچھ اس طریقے سے تھا کہ وہ سمات، حدوث، ترکیب اور افتقار سے اللہ کی تنزیہ کرتے تھے اور اسے باقتدار مطلق متصف کرتے تھے، یہی تنزیہ عقلاً مشہور ہے۔ عقل اس سے آگے ہر گز تجاوز نہیں کرسکتی۔
جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت نازل فرمائی اور اپنے دین کو کامل و مکمل کیا تو پھر اللہ تعالیٰ کی شناخت کا رستہ یہ ٹھہرا کہ عارف باللہ کو دو معرفتوں کا جامع ہونا چاہیے۔ ایک وہ معرفت جس کا ادلہ عقلیہ تقاضا کرتی ہیں۔ دوسری وہ معرفت جسے اخباراتِ الٰہیہ لائی ہیں، پھر وہ اس علم کو اللہ کی طرف منسوب کرے اور جو کچھ شریعت حقہ لائی ہے اس پر ارادہ الٰہی کے موافق تاویل فکر اور تحکم رائے کے بغیر ایمان لائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے شریعتیں نازل فرمائی ہیں کہ عقول بشریہ اشیا کا جوں کا توں بالکل اسی طرح جس طرح اللہ کے علم میں ہیں، ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور انھیں یہ استقلال کہاں ہو سکتا ہے، حالانکہ وہ اس اطلاق کے ساتھ مقید ہیں جو ان کے پاس ہے۔
پس اگر اللہ تعالیٰ ان عقلوں کو اپنی مراد کے مطابق اوضاع شرعیہ سے علم عطا کر دے اور اس باب میں اپنی حکمتوں پر اطلاع کر دے تو یہ اس کا فضل ہے۔ البتہ عارف کو یہ نہ چاہیے کہ وہ اس احسان کو اپنی فکر کی طرف منسوب کرے، کیونکہ وہ تنزیہ جو عارف اپنی فکر کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے لیے