کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 256
میں) وارد ہونے والی صفات کی تاویل کے قائل نہیں ہیں] یہاں تک کہ ۷۰۰ھ کے بعد دمشق اور اعمالِ دمشق میں تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ حرانی رحمہ اللہ کی شہرت ہوئی اور وہ مذہبِ سلف کی ترویج واشاعت کے درپے ہوئے۔ انھوں نے اشعری مذہب کے رد کرنے میں مبالغہ کیا اور رافضہ اور صوفیہ پر کھلم کھلا انکار فرمایا۔ لوگ ان کے حق میں دو فریق بن گئے، ایک فریق نے ان کی اقتدا کی، ان کے اقوال پر اعتماد کیا، ان کی رائے پر عامل ہوئے، انھیں شیخ الاسلام جانا اور ملتِ اسلامیہ کے کبار حفاظ میں شمار کیا، جبکہ دوسرے گروہ نے ان کو بدعتی اور گمراہ قرار دیا، اثباتِ صفات کی بابت ان پر عیب لگایا اور چند مسائل پر تنقید کی جن میں ان کے لیے سلف موجود تھا اور بعض میں انھیں خارق اجماع سمجھا جن میں ان کا سلف نہ تھا۔ ان کے اور لوگوں کے درمیان بہت سے معاملات اور حوادث وقوع پذیر ہوئے، بہر حال ان کا اور لوگوں کا معاملہ اور حساب اس اللہ کے سپرد ہے جس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ ابھی تک شام میں ان کے متبعین بہت زیادہ ہیں، جب کہ مصر میں کم ہیں۔ اشاعرہ اور ما تریدیہ کے عقائد میں اختلاف: اشاعرہ اور ابو منصور محمد بن محمد بن محمود ما تریدی کے متبعین ما تریدیہ میں عقائد کی بابت جو اختلاف ہے وہ بہ جائے خود مشہور ہے۔ فرقہ ما تریدیہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا مقلد ہے۔ مقریزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تحقیق و تفتیش سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان اختلافی مسائل دس سے کچھ اوپر ہیں۔ شروع میں ان مسائل کے سبب کچھ تباین و تنافر تھا، چنانچہ ہر فرقہ دوسرے فرقے کے عقیدے میں جرح اور تنقید کرتا تھا، لیکن انجام کار ان میں چشم پوشی ہو گئی، وللّٰہ الحمد۔ ’’فھذا أعزک اللّٰہ بیان ما کانت علیہ عقائد الأمۃ من ابتداء الأمر إلی وقتنا ھذا فقد وصل ذلک إلیک صفواً ونلتہ عفواً بلا تکلف مشقۃٍ ولا بذل مجھودٍ ولکن اللّٰہ یمن علی من یشاء من عبادہ‘‘ انتھیٰ حاصلہ۔ [اللہ تعالیٰ آپکو عزت عطا فرمائے! یہ تھا امت کے ابتدا سے لیکر ہمارے آج کے دور تک کے عقائد کا بیان جو صاف ستھرا ہو کر آپ تک کسی تکلف اور کوشش و محنت کے صرف کیے بغیر