کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 255
اور مصیبتیں در آئیں جو بیان سے باہر ہیں، نیز اس فلسفے کے ذریعے اہلِ بدعت بہت زیادہ گمراہ ہوئے اور اس نے ان کے کفر میں مزید اضافہ کر دیا] ۳۳۴ھ میں جب بنو بویہ کی حکومت قائم ہوئی اور ۴۳۷ھ تک وہ حکمران رہے، اس دوران میں مذہبِ تشیع نے خوب قوت پکڑی۔ عراق، خراسان اور ماوراء النہر میں مذہبِ اعتزال پھیل گیا اور مشاہیر فقہا بھی اس کی طرف مائل ہو گئے۔ ادھر افریقہ اور بلادِ مغرب میں مذاہب اسماعیلیہ کا ظہور ہو گیا۔ ۳۵۸ھ میں ان کی سعی سے عموماً بلادِ مغرب، مصر، شام، دیارِ بکر، کوفہ، بصرہ، بغداد، سارا عراق، بلاد خراسان، ماوراء النہر، بلادِ حجاز، یمن اور بحرین میں رافضہ کا مذہب عام ہو گیا۔ ان کے اور اہلِ سنت کے درمیان فتنے ظاہر ہوتے رہے اور آپس میں جنگیں ہوتی رہیں۔ پھر اس کے بعد مذاہبِ قدریہ، جہمیہ، معتزلہ، کرامیہ، خوارج، روافض، قرامطہ اور باطنیہ نے شہرت پکڑی اور ساری زمین انہی لوگوں سے بھر گئی۔ کوئی شہر اور علاقہ ایسا نہ بچا جہاں یہ مذاہب نہ ہوں۔ یہ لوگ فلسفے میں نظر کرتے تھے۔ ادھر ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے مذہبِ اعتزال چھوڑ کر طریقِ سنت اختیار کیا اور نفی و اثبات کے درمیانی راستے پر چلے، یعنی نفی اعتزال اور اثبات اہلِ تجسیم۔ اہلِ علم کی ایک جماعت نے ان کی رائے پر اعتماد کیا، جیسے ابو بکرباقلانی مالکی، ابن فورک، ابو اسحاق اسفرائنی، ابراہیم شیرازی، امام غزالی، ابو الفتح شہر ستانی اور فخر الدین رازی وغیرہ۔ ۳۸۰ھ سے یہ عقیدہ عراق میں پھیلا، پھر شام میں آیا، پھر مصر اور مغرب میں، پھر اس عقیدے کا ایسا انتشار ہوا کہ اس عقیدے کے سوا کوئی عقیدہ باقی نہ رہا اور پہلے عقائد فراموش ہو گئے، چنانچہ مقریزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’حتی لم یبق الیوم مذہب یخالفہ، إلا أن یکون مذہب الحنابلۃ أتباع الإمام أحمد بن حنبل رضی اللّٰہ عنہ فإنہم کانوا علی ما کان علیہ السلف، لا یرون تأویل ما ورد من الصفات‘‘ [حتی کہ آج کوئی مذہب ایسا باقی نہیں بچا جو اس کے خلاف ہو، الایہ کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پیروکار حنابلہ کا مذہب ہو، یقینا وہ لوگ سلف کے منہج پر گامزن ہیں اور (کتاب وسنت