کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 254
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا حال سن کر اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا، اسی طرح سلف نے فرقہ قدریہ سے اجتناب کرنے کی تاکید فرمائی۔ معبد بن خالد جہنی امام حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا کرتا تھا، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کہا: ’’کذب عدو اللّٰہ ‘‘ [اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے]۔
اسی طرح خوارج کا مذہب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے ہی میں شروع ہوا تھا اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے مناظرہ کیا تھا، مگر وہ حق کی طرف نہ پلٹے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان خارجیوں کی ایک جماعت کو قتل کیا تھا۔
مذہبِ تشیع کا حدوث بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور ہی میں ہوا تھا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے غالی شیعوں کو آگ میں جلا دیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے بعد جہم بن صفوان کا مذہب ایجاد ہوا جس کے سبب بلادِ مشرق میں ایک عظیم فتنہ برپا ہوا، اہلِ اسلام نے اس کی بدعت کو بہت بڑا سمجھ کر اس کا انکار کیا اور جہمیہ کی تضلیل کی۔
اسی اثنا میں مذہبِ اعتزال ایجاد ہوا۔ دوسری صدی ہجری کے بعد ائمہ اسلام نے ان کے مذہب سے ممانعت کی اور علمِ کلام کی مذمت فرمائی۔
پھر اس کے بعد مذہب تجسیم ایجاد ہوا، اس مذہب کی ابتدا ۲۶۴ھ میں ہوئی۔ یہ مذہب کوفہ سے نکل کر عراق تک جا پہنچا، اسی طرح بحرین میں یہ مذہب پہنچا۔ اس مذہب کا موجد حمدان اشعث المعروف قرمط تھا۔ قرمط کوتاہ قامت، اور باریک چال چلنے والے کو کہتے ہیں حمدان اسی طرح کا تھا۔ اس کا ایجاد کردہ مذہب بہت پھیل گیا۔
بلادِ روم سے درآمد شدہ کتابیں مذاہبِ باطلہ کی بنیاد ہیں:
بغداد کے ساتویں خلیفہ مامون الرشید نے بلادِ روم سے قدیم کتابیں طلب کرکے ان کے عربی میں تراجم کرائے۔ ۲۲۰ھ کے بعد مذاہبِ فلاسفہ کا انتشار ہوا، چنانچہ معتزلہ، قرامطہ اور جہمیہ ان پر فریفۃ ہو گئے۔ مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فانجر علی الإسلام وأھلہ من علوم الفلاسفۃ ما لا یوصف من البلاء والمحنۃ في الدین و عظم بالفلسفۃ ضلال أہل البدع و زادتہم کفرا إلی کفرہم‘‘
[فلسفی علوم کے ذریعے اسلام اور اہلِ اسلام میں ان کے دین کے بارے میں وہ بلائیں