کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 253
بیان شدہ اور وحی کے ذریعے معلوم شدہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وصف بیان کیا۔ عرب میں کسی شخص نے، خواہ وہ شہری تھا یا دیہاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے معنی دریافت نہیں کیے جس طرح وہ نماز، روزہ، حج، زکات اور امرو نہی سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے یا جس طرح قیامت، جنت اور جہنم کے بارے میں پوچھتے تھے، کیونکہ اگر کوئی شخص ان صفاتِ الٰہیہ سے متعلق سوال کرتا تو وہ ضرور نقل ہو کر ہم تک پہنچتا، جس طرح حلال و حرام، ترغیب و ترہیب کے احکام، قیامت، ملاحم اور فتن کے احوال کی احادیث منقول ہوئی اور دواوینِ احادیث اور آثارِ سلفیہ میں موجود ہیں، حالانکہ کسی صحیح یا سقیم طریق سے کسی ایک صحابی سے اختلافِ طبقات اور کثرتِ عدد کے باوجود یہ بات مروی نہیں ہے کہ اس نے قرآن مجید میں ذکر کردہ اور نبی رحیم کی زبان سے بیان شدہ صفاتِ الٰہیہ میں سے کسی وصف کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ہو، بلکہ سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے معانی سمجھ کر ان پر کلام کرنے سے سکوت کیا تھا۔
کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ فرق بھی نہیں نکالا کہ یہ صفتِ ذات ہے اور وہ صفتِ فعل، بلکہ علم، قدرت، حیات، ارادہ، سمع، بصر، کلام، جلال، اکرام، جود، انعام، عز اور عظمت سے صفاتِ ازلیہ کا اثبات کیا اور کلام کو ایک ہی طریق پر چلایا۔ اسی طرح ان الفاظ کا اثبات کیا جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نفسِ کریم پر اطلاق کیا ہے، جیسے وجہ، ید اور اسی طرح کے دیگر الفاظ، مگر مخلوق کی مماثلت کی نفی کے ساتھ۔
غرض یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کسی تشبیہ کے بغیر یہ اثبات کیا ہے اور تعطیل کے بغیر تنزیہ اختیار کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی ایک صحابی رضی اللہ عنہ بھی کسی ایک صفت کی تاویل کے درپے نہیں ہوا، بلکہ سب نے بالاتفاق یہ عقیدہ رکھا کہ صفات کو، جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں، جاری کریں۔ ان میں سے کسی کے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے اللہ کی وحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر استدلال کریں۔ اسی طرح کسی ایک صحابی نے کبھی کوئی چیز طرق کلامیہ اور مسائل فلسفیہ سے نہیں پہچانی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور مسعود اسی طرز اور نہج پر گزر گیا، یہاں تک کہ ان کے زمانے میں تقدیر پر نقطہ چینی کی بدعت ایجاد ہوئی اور امر کو ’’انف‘‘ کہا گیا، یعنی اللہ نے اپنی مخلوق پر کسی چیز کو اس حال سے، جس پر مخلوق ہے، مقدر نہیں فرمایا۔
عہدِ صحابہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے فرقے اور مذاہب:
اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر پر بات کی وہ معبد بن خالد جہنی ہے۔ چنانچہ سیدنا