کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 249
کے سوا کی حرمت کا فتوی دیا اور آج کے دن تک اسی پر عمل ہے] میں[نواب صاحب رحمہ اللہ ] کہتا ہوں کہ ان مذاہب کو تسلیم کرنے کا وجوب اور نہ ماننے کی حرمت کا موقف ٹھیک نہیں تھا، اس پر کوئی نص جلی اور دلیل قوی قائم نہیں ہے، یقینا ان مذاہب اربعہ کے درمیان حق ضرور موجود ہے لیکن حق انہی میں منحصر نہیں ہے، مگر اس لحاظ سے کہ مذہب اہلِ حدیث اور ظاہریہ بھی ان مذاہب کے اندر موجود ہیں۔ اگر یہ بات کہیں کہ کتاب و سنت پر پیش کرنے کے بعد ان مذاہب کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تو یہ درست ہے، مگر اس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ عقائد کے اختلاف کا ذکر: جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر مذاہبِ اربعہ کے قرار پانے اور رائج ہونے کے دور تک کا حال معلوم ہو چکا تو اب مختلف فرقوں کے عقائد کے اختلاف کا حال اجما لاً معلوم کرنا ضروری ہے۔ اس کی تفصیل رسالہ ’’کشف الغمۃ في افتراق الأمۃ‘‘ میں لکھی جا چکی ہے۔ جن لوگوں نے اصولِ دیانات میں کلام کیا ہے، وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک ملتِ اسلام کے مخالف اور دوسرے اسلام کا اقرار کرنے والے۔ مخالفینِ ملت اسلام دس گروہ ہیں: 1۔ دہریہ، 2۔اصحابِ عناصر، 3۔ثنویہ یعنی مجوس، 4۔نیچری، 5۔صابئہ، 6۔یہود، 7۔نصاریٰ، 8۔اہلِ ہند، 9۔زنادقہ انھیں میں قرامطہ بھی داخل ہیں، 10۔فلاسفہ، فلسفت حکمت کو کہتے ہیں اور فیلسوف محب حکمت کو۔ ان کا علم چار انواع میں منحصر ہے: طبیعی، مدنی، ریاضی اور الٰہی۔ دوسری قسم اہلِ اسلام کے فرقے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو مندرجہ ذیل حدیث سے مراد ہیں: (( سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ ثَلَاثاً وَّسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، ثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ ھَالِکَۃٌ وَ وَاحِدَۃٌ نَاجِیَۃٌ )) [1] [میری امت تہتر گروہوں میں بٹ جائے گی جن میں سے بہتر ہلاک ہوں گے اور ایک جماعت نجات پائے گی] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: (( اِفْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلٰی إِحْدیٰ وَسَبْعِینَ أَوْ ثِنْتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃً وَتَفَرَّقَتِ النَّصَاریٰ عَلٰی إِحْدیٰ أَوْ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلٰی ثَلَاثٍ
[1] یہ روایت متعدد کتب سنن میں مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ دیکھیں: سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۵۹۶) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۰) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۹۹۲)