کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 247
بچے کھچے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متفرق ہو گئے۔ کبھی یوں ہوتا کہ ایک مسئلے میں حدیث موجود ہوتی لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بکھر جانے اور دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل جانے کے سبب مفتی کو اس کا علم نہ ہوتا تو وہ چار وناچار اجتہاد کرتا۔
اس کے بعد جس صحابی نے جس شہر میں قیام کیا، وہاں کے لوگوں نے اسی کے علم پر اقتصار و اکتفا کیا، چنانچہ ایک شہر کے لوگوں کو دوسرے شہر کے علم کی خبر نہ ہوئی، کوئی مکہ میں تھا تو کوئی کوفہ میں، کوئی بصرہ میں تھا تو کوئی شام و مصر میں۔
ایک زمانے تک احکامِ شریعت کی بابت مختلف شہروں میں اہلِ اسلام کا یہی حال رہا، جب سفر کی کثرت ہوئی اور لوگ حدیث کے جمع کرنے اور اس کی تدوین کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو ہر جگہ سے اس علم کو جمع کر کے ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچایا اور جس کو یہ علم پہنچا اس پر حجت قائم ہو گئی۔ نیز اس علم میں صحیح کو سقیم سے جدا کیا گیا، اجتہاد کا وہ بازار، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی مخالفت ہوتی تھی، سرد پڑ گیا، عمل بالحدیث کے ترک کا عذر جاتا رہا، کیونکہ لوگوں کو سنن اور احادیث پہنچ گئیں اور ان پر حجت قائم ہو گئی۔
صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم اسی طریق پر لگے رہے۔ ایک ایک حدیث کے لیے مدت دراز اور مسافت دراز کا سفر کرتے تھے۔ ہارون الرشید رحمہ اللہ کے زمانے میں جب قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ ۱۷۰ھ میں والی قضا ہوئے تو عراق، خراسان، مصر اور شام میں وہی شخص قاضی بنتا جس کی طرف قاضی ابویوسف رحمہ اللہ اشارہ کرتے۔
اسی طرح جب منتصر ۱۸۰ھ میں اندلس کے حاکم بنے تو یحییٰ بن یحییٰ رحمہ اللہ جس کی طرف اشارہ کرتے، وہی بلاد و اعمالِ اندلس میں قاضی مقرر ہوتا۔ قاضی ابو سف رحمہ اللہ حنفی تھے اور یحییٰ بن یحییٰ رحمہ اللہ مالکی تھے۔
افریقہ میں سنن و آثار کا غلبہ تھا، پھر ابو محمد فارسی نے وہاں پر حنفی مذہب کو رواج دیا، پھر جب سحنون قاضی بنے تو مالکی مذہب نے رواج پایا۔
مصر میں عبد الحیٔ بن خالد امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب لائے۔ یہ ۱۶۳ھ کی بات ہے۔ اس سے پہلے مصر میں مذہب مالک رحمہ اللہ کو کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا۔ پھر امام شافعی رحمہ اللہ مصر تشریف لائے، تب