کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 246
پہلی فصل
اہلِ امصار کے مذاہب کا بیان[1]
عیسی بن مریم علیہ السلام کے زمانے کے بعد باقی ماندہ اہلِ کتاب کے سوا سارے عرب و عجم اہلِ شرک، بت پرست اور غیر اللہ کی عبادت کرنے والے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا اور تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا۔ جب قریشِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ چلے آئے۔ مدینے کے لوگ ہر وقت آپ کے گرد جمع رہتے تھے، حالانکہ وہ نہایت تہی دست، تنگ عیش اور مفلس تھے۔ کوئی ان میں سے بازاروں میں کام دھندا کرتا، کوئی کھجوروں کے باغوں کا مالک تھا تو کسی کو طلبِ رزق میں بہت ہی کم فرضت ملتی تھی۔ اس لیے جو شخص جس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ آپ کے ارشادات سن کر یاد رکھتا اور جو اس وقت حاضر نہ ہوتا اسے ان ارشادات کا علم نہ ہوتا جو اس کی غیر موجودگی میں صادر ہوتے تھے، چنانچہ کوئی بات کسی کو معلوم ہوتی اور کسی کو معلوم نہ ہوتی، بلکہ جو بات کسی اعرابی کو معلوم ہوتی وہ بعض اکابر صحابہ پر مخفی رہتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خلفاے اربعہ وغیرہ فتوی دیتے تھے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مرتدین اور اہلِ شام و عراق سے جہاد و قتال کرنے کے لیے مدینے سے نکل گئے اور بہت تھوڑے صحابی مدینے میں باقی بچے۔ جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو خلیفہ اول کتاب و سنت سے اس کا جواب مرحمت فرماتے اور اگر قرآن و حدیث میں وہ مسئلہ نہ ملتا تو حاضرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کرتے، پھر اگر ان کے پاس بھی اس کا علم نہ ہوتا تو خود اس مسئلے میں اجتہاد کرتے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی فتوے کے اجرا کا یہی طریقہ رہا، اس وقت تک
[1] یہ مبحث امام احمد بن علی مقریزی کی کتاب ’’المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار‘‘ (۳/۶۸-۱۰۸) سے ماخوذ ہے۔