کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 241
(( مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُبَاہِيَ بِہِ الْعُلَمَاء َ أَوْ لِیُمَارِيَ بِہِ السُّفَہَاء َ أَوْ لِیَصْرِفَ بِہٖ وُجُوہَ النَّاسِ إِلَیْہِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))[1] [جس شخص کے طلبِ علم کا سبب علما پر فخر کرنا، بیوقوف لوگوں سے جھگڑا کرنا اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہو تو اسے اپنا ٹھکانا جہنم سمجھ لینا چاہیے] امام وہیب بن ورد رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’بہت سے علما ایسے ہیں جنھیں لوگ عالم کہتے ہیں، مگر وہ اللہ کے ہاں جاہلوں میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( إِنَّ أَوَّلَ مَا یُسَعَّرُ بِہِ النَّارُ ثَلَاثَۃٌ، أَحَدُہُمْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ و تَعَلَّمَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ ھُوَ عَالِمٌ وَقَارِیٌٔ، وَیُقَالُ لَہٗ قَدْ قِیْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْہِہٖ حَتّٰی أُلْقِيَ فِيْ النَّارِ )) [2] [یقینا سب سے پہلے جس کے ساتھ جہنم کو بھڑکایا جائے گا، وہ تین قسم کے آدمی ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے اس لیے قرآن پڑھا اور علم حاصل کیا تا کہ اسے قاری اور عالم کہا جائے، اسے کہا جائے گا تجھے قاری وعالم کہہ دیا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا] پھر اگر نفس اس پر قناعت نہ کرے، بلکہ اس درجے تک پہنچے کہ اس زمانے میں لوگ اسی شخص کی تعظیم کرتے ہیں جو اس طرح کا ہوتا ہے، ورنہ وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے تو اس نے اس گھٹیا چیز کو اس چیز سے بدل لیا جو اس سے بہتر تھی اور وہ علما کے درجے سے نیچے گر کر گھٹیا درجے میں آ گیا۔ اسلاف میں سے کسی کو جب قاضی مقرر کیا جانے لگا تو انھوں نے کہا: ’’إنما تعلمت العلم لأحشر بہ مع الأنبیاء لا مع الملوک، فإن العلماء یحشرون مع الأنبیائ، والقضاۃ یحشرون مع الملوک‘‘ [میں نے تو اس لیے علم حاصل کیا ہے کہ میرا حشر انبیا کے ساتھ ہو نہ کہ بادشاہوں کے
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۵۴) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۶۰) [2] دیکھیں: صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۰۵)