کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 240
بعض سلف نے کہا ہے کہ کوئی شخص ایک قوم کے پاس بیٹھتا ہے اور وہ قوم یہ خیال کرتی ہے کہ یہ شخص بے زبان اور عاجز ہے، حالانکہ وہ عاجز نہیں ہوتا، بلکہ وہ صاحبِ بصیرت مسلمان ہوتا ہے۔ جو شخص سلف کی قدر کو پہچانتا ہے، وہ یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ طولِ کلام، کثرتِ جدال و خصام اور حاجت و ضرورت سے زیادہ بیان سے ان کا سکوت کسی جہل اور کوتاہ علمی کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ ورع اور اللہ تعالی کی خشیت کے سبب سے تھا۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ بے فائدہ امور کو چھوڑ کر فائدہ مند چیزوں میں مشغول تھے اور ان کی یہ خصلت قابلِ ستایش ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: (( مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ )) [1] [لا یعنی اور فضول باتوں کو چھوڑنا انسان کے اچھا مسلمان ہونے کی نشانی ہے] اسلاف کا وہ کلام جو اصولِ دین میں تھا یا فروع میں یا تفسیر قرآن، حدیث، زہد و رقائق، حکم اور مواعظ وغیرہ میں، انھوں نے جس چیز پر بھی کلام کیا ہے، جو کوئی ان کی راہ پر چلے گا وہ راہ یاب ہے اور جو کوئی دوسری راہ پر چلے گا، وہ کثرتِ سوال، بحث و جدال اور قیل و قال میں داخل ہو گا۔ اگر وہ ان اسلاف کے فضل اور اپنے نفس کے نقص کا معترف ہے تو وہ قریب الحال ہے۔ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: جو کوئی اپنے نفس کا عیب نہیں جانتا، وہ احمق ہے۔ کسی نے ان سے دریافت کیا: ’’آپ جناب میں کیا عیب ہے؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا: ’’یہی کثرتِ کلام‘‘ اگر کوئی اپنے نفس کے لیے فضل کا مدعی اور سلف کے لیے نقص کا مدعی ہے تو وہ واضح گمراہی اور خسران عظیم میں مبتلا ہے۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی الجملہ ان بگاڑ سے آلودہ زمانوں میں یا تو انسان اپنے نفس کے لیے اس بات پر راضی ہو کہ وہ اللہ کے ہاں عالم ٹھہرے یا اس پر راضی ہو کہ وہ اہلِ زمان کے ہاں عالم ہو۔ اگر تو وہ پہلی بات پر خوش ہے تو وہ اپنے بارے میں اللہ کے علم پر کفایت کرے۔ جس کے اپنے اور اللہ کے درمیان کوئی جان پہچان ہے، اسے اپنی نسبت اللہ ہی کی معرفت پر اکتفا کرنا چاہیے اور جو شخص اس بات پر راضی ہے کہ وہ لوگوں کے ہاں عالم شمار ہو تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں داخل ہے:
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۳۱۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۹۷۶)