کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 238
ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دیں؟] عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ جب سلف کے اخلاق و عادات کا ذکر کرتے تو یہ شعر پڑھتے: لا تعرضن لذکرنا في ذکرہم لیس الصحیح إذا مشی کالمقعد [ان (اسلاف) کے تذکرے میں ہمارا ذکر مت کرو، صحیح اور تندرست بندہ جب چلے تو وہ بیٹھے ہوئے (بیمار) بندے کی طرح نہیں ہوتا] جس شخص کا علم غیر نافع ہوتا ہے، وہ کثرتِ مقال اور تفصیلِ کلام میں اپنے نفس کو متقدم عالم سے افضل جانتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں میرا نفس علم و درجے میں اس سے افضل ہے، کیوں کہ یہ فضل میرے ساتھ مختص ہے، مجھ سے پہلے کسی کو یہ امر حاصل نہ تھا، اس لیے عالم متقدم اس کی نظر میں حقیر معلوم ہوتا ہے اور یہ اس پر قلتِ علم کا عیب لگاتا ہے، حالانکہ اس بیچارے کو یہ معلوم نہیں ہے کہ سلف کی قلتِ کلام براہِ ورع اور خشیتِ الٰہی تھی۔ اگر وہ طولِ کلام کا ارادہ کرتے تو وہ اس سے ہر گز عاجز نہ ہوتے، جس طرح کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک قوم کو دین کے بارے میں حجت بازی اور جھگڑا کرتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا: کیا تمھیں معلوم نہیں ہے کہ یقینا اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو کلام پر عدمِ قدرت اور گونگے پن نے نہیں بلکہ خشیتِ الٰہی نے خاموش کر رکھا ہے؟ حالانکہ یقینا وہ علما، فصحا، طلقا، نبلا اور گذشتہ قوموں پر اللہ کے عذاب یا رحمت کے دنوں کا بہ خوبی علم رکھنے والے ہیں۔ مگر جب وہ اللہ کی عظمت اور بڑھائی کو یاد کرتے اور اس کا تصور کرتے تھے تو اس کی وجہ سے ان کی عقلیں جواب دے جاتی تھیں، ان کے دل ٹوٹ جاتے تھے اور ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی تھیں، حتی کہ جب انھیں اس حالت سے کچھ افاقہ ہوتا اور ہوش آتی تو وہ اعمال کی بجا آوری کے ذریعے اللہ کی طرف جلدی کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو کوتاہی کرنے والے لوگوں میں شمار کرتے، یقینا وہ ظالموں اور خطاکاروں کے ساتھ سخت اور عاقل و تیز فہم تھے اور وہ بہت زیادہ نیکو کار اور اللہ کے دشمنوں سے بری تھے، مگر وہ اللہ کی بہت زیادہ عبادت کر کے بھی اسے زیادہ نہیں سمجھتے تھے اور اس کی تھوڑی عبادت پر راضی