کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 237
لیے غصے کے طور پر، اور نہ وہ کسی پر اپنی بڑھائی قائم کرنے کے لیے گفتگو کرتا ہے۔
جس شخص کا علم غیر نافع ہے، اسے اپنے نفس پر تکبر کرنے، لوگوں پر فخر کرنے، مخلوق پر اپنی فضیلت کا اظہار کرنے، انھیں جہل کی طرف منسوب کرنے اور ان پر اپنی رفعت قائم کرنے کے لیے ان کی خامیاں نکالنے کے سوا کوئی شغل نہیں ہوتا ہے، حالانکہ یہ شغل انتہائی قبیح اور ردی خصلتوں میں سے ہے، بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے علما کو جہل، غفلت اور سہو کی طرف منسوب کرتا ہے، جس سے اپنے نفس کے ساتھ حسن ظن اور سلف کے ساتھ بدگمانی لازم آتی ہے۔
میں [نواب صاحب رحمہ اللہ ]کہتا ہوں کہ میرے ایک ہم عصر نے خواب میں امام مالک رحمہ اللہ کی رویت کا قصہ بیان کر کے لکھا ہے کہ مجھے ان کی کتاب ’’موطا‘‘ پر چند اعتراضات تھے، لیکن میں نے ان سے ان کے متعلق کچھ دریافت نہ کیا۔ انتھیٰ۔ حالانکہ موطا ایک مبارک اور قدیم کتاب ہے، سارے ائمہ اس کتاب کے خوشہ چین ہیں اور امام مالک رحمہ اللہ امام دار الہجرۃ تھے۔
شیخی بگھارنا اور فخر وتکبر کرنا توہین آمیز خیالات پیدا کرنے کا باعث بنا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو حفظِ مراتب اور آدابِ سلف کو ملحوظ رکھنے کی توفیق بخشے اور ہمارے دلوں کو اہلِ خیر القرون اور اہلِ صدر اول کی طرف سے پاک رکھے۔ اللّٰهم آمین۔
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہلِ علمِ نافع اپنے نفوس کے ساتھ بد گمانی کرتے ہیں اور علماے سلف کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ وہ اپنے دل اور نفس سے سلف صالحین کے فضل کا اقرار کیا کرتے ہیں اور اپنے عجزو انکسار کے معترف رہتے اور کہتے ہیں کہ ہم ان کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے، بلکہ ان کے مرتبے کے قریب تک بھی ہماری رسائی نہیں ہے۔
امام عالی مقام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ علقمہ افضل ہیں یا اسود؟ تو انھوں نے کیا خوب جواب دیا:
’’و اللّٰہ ما نحن بأھل أن نذکرہم، فکیف نفضل بینہم؟‘‘
[اللہ کی قسم! ہم تو اس بات کے بھی اہل نہیں ہیں کہ ان کا تذکرہ کریں، چہ جائے کہ ہم