کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 236
اہلِ علمِ نافع کا علم جب زیادہ ہوتا ہے تو اللہ کے لیے ان کی تواضع، خشیت، عاجزی اور انکساری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعض علماے سلف نے کہا ہے: عالم کو چاہیے کہ اپنے سر پر خاک ڈالے اور اپنے رب کے لیے خاکساری کرے، کیوں کہ جتنا اس کا علم بڑھے گا اتنی ہی اسے اپنے رب تعالی کی معرفت زیادہ ہو گی، اللہ کی خشیت و محبت کی افزایش ہو گی اور اس کی انکساری اور عاجزی روز افزوں ہو گی۔ در خاک بلقان برسیدم بعابدے گفتم مرا بتربیت از جہل پاک کن [سر زمین بلقان میں میں ایک عابد و درویش کے پاس گیا تو میں نے کہا: تعلیم وتربیت کے ذریعے مجھے جہالت سے پاک کر دو] گفتا برو چو خاک تحمل کن اے فقیہ یا ہرچہ خواندہ ہمہ در زیرِ خاک کن [اس نے کہا: اے فقیہ! جاؤ اور مٹی کی طرح تحمل مزاج بن جاؤ، یا جو کچھ تم نے پڑھا ہے اسے زیرِ زمین دفن کر دو] 2۔ نفع مند علم والوں کی ایک علامت یہ ہے کہ ان کا علم انھیں دنیا سے بھاگنے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ سب سے بڑی دنیا یہی ریاست، شہرت اور مدح ہے۔ اس سے دور رہنا اور اس سے بچنے کی کوشش کرنا علمِ نافع کی علامت اور نشانی ہے۔ پھر اگر وہ بے اختیار ان چیزوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے تو صاحبِ علم کو چاہیے کہ انجام کار سے ڈرتا رہے اور یہ خیال کرے کہ کہیں یہ بات میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف خفیہ چال اور ڈھیل دینے کے طور پر نہ ہو۔ جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا نام جب لوگوں میں عام اور مشہور ہو گیا تو وہ اپنے نفس پر نہایت خوف زدہ رہتے تھے۔ 3۔ علمِ نافع کی ایک علامت یہ ہے کہ اس علم کا عالم اپنے علم کا مدعی ہوتا ہے نہ کسی شخص پر فخر کرتا ہے اور نہ اپنے غیر کو جاہل قرار دیتا ہے، سوائے اس شخص کے جو سنت اور اہلِ سنت کی مخالفت کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کی گفتگو اللہ کے لیے غضب کے طور پر ہوتی ہے نہ کہ اپنے نفس کے