کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 232
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے کہا ہے: ’’لوگوں سے سب سے پہلے جو علم اٹھ جائے گا وہ خشوع ہے۔‘‘[1] سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترتا، لیکن جب قرآن مجید دل میں واقع ہو کر راسخ ہو جاتا ہے تو وہ نفع مند ثابت ہوتا ہے۔‘‘ امام حسن رحمہ اللہ نے کہا ہے: علم کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ علم ہے جو زبان پر ہوتا ہے اور یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابن آدم پر حجت ہے۔ دوسرا وہ علم جو دل میں راسخ ہے اور یہ علم، علمِ نافع ہے۔ سلف کہتے ہیں: علما تین طرح کے ہوتے ہیں: 1۔ ایک عالم باللہ، عالم بامر اللہ۔ 2۔ دوسرا عالم باللہ اور غیر عالم بامر اللہ۔ 3۔ تیسرا عالم بامر اللہ اور غیر عالم باللہ۔ ان سب میں سے اکمل و افضل پہلی قسم ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے وہی لوگ ہیں جو احکامِ الٰہیہ کے عارف و عالم ہیں۔ ساری شان اسی میں ہے کہ بندہ علم سے اپنے رب تعالیٰ کو پہچان لے، چنانچہ جب وہ رب کو پہچان لے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے قریب پائے گا، اللہ تعالیٰ بھی اس کے نزدیک ہو جائے گا اور اس کی دعا قبول کرے گا، جس طرح ایک اسرائیلی اثر میں مروی ہے: ’’ابن آدم! اطلبني تجدني فإن وجدتني وجدت کل شيئ، وإن فتک فاتک کل شيئ، وأنا أحب إلیک من کل شيئ‘‘ [اے ابن آدم! میری طلب اور جستجو کر تو مجھے پالے گا، پس اگر تو مجھے پالے گا تو تو ہر چیز پالے گا اور اگر تو مجھے نہ پا سکا تو تجھ سے ہر چیز چھوٹ جائے گی، جبکہ میں تجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں] لکل شيء إذا فارقتہ عوض ولیس للّٰه إن فارقت من عوض
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۵۳) مسند أحمد (۶/ ۲۶)