کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 229
[جو اللہ سے ڈرا وہ عالم ہے اور جس نے اس کی نافرمانی کی، وہ جاہل ہے] علمِ نافع کس طرح خشیت پیدا کرتا ہے؟ علم دو امور پر دلالت کرتا ہے: 1۔ اللہ کی معرفت، یعنی اللہ تعالی کن اسماے حسنیٰ، صفاتِ علیا اور افعالِ باہرہ کا مستحق ہے، چنانچہ یہ شناختِ باری تعالیٰ اجلال واعظام، خشیت ومہابت اور محبت و رضاے الٰہی کو مستلزم ہوتی ہے۔ 2۔ دوسرا اس بات کی شناخت حاصل کرنا کہ اللہ تعالی کو اعتقادات، اعمالِ ظاہرہ وباطنہ اور اقوال میں سے کون سی چیز پسندیدہ ہے اور کس چیز سے وہ کراہت فرماتا ہے، لہٰذا جس شخص کو اس بات کا علم حاصل ہو جاتا ہے تو وہ اس چیز کی طرف جلدی کرتا ہے جس میں اللہ کی محبت، خوشی اور رضا ہوتی ہے اور جس چیز کو وہ مکروہ، مسخوط اور ناخوش رکھتا ہے، یہ شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔ پس جب علم نے اپنے جاننے والے کو یہ ثمرہ عطا کیا تو یہ علم نافع ٹھہرا اور جب اس نے نافع ہوکر دل میں جگہ اور وقار پکڑا تو اب وہ دل اللہ کے لیے خشوع کرنے والا، اس کی ہیبت و اجلال، خشیت و محبت اور تعظیم کے سبب اس کے سامنے ذلیل و خوار ہو جائے گا اور جب دل میں خشوع، خضوع اور انکساری آ گئی تو اب اس کا نفس دنیا میں تھوڑے سے حلال پر قانع ہو کر شکم سیر رہے گا۔ یہ قناعت اس کے لیے دنیا میں زہد کی موجب ہو جائے گی اور وہ سب کو فانی سمجھ لے گا۔ مال و جاہ اور فضول عیش کا کوئی حصہ باقی نہ رہے گا، کیونکہ عدمِ قناعت کے سبب اللہ تعالی کے ہاں آخرت کی نعمتوں سے اس کا حصہ کم ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ شخص اللہ تعالی کے ہاں کریم ہو۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سلف نے ایسے ہی کہا ہے اور یہ بات مرفوعاً بھی مروی ہے۔ بندے اور رب کے درمیان معرفت خاصہ اور اس کے ثمرات: علم نافع اس بات کا موجب ہے کہ بندے اور رب کے درمیان ایک معرفت خاصہ ہو، تاکہ جب وہ اللہ تعالی سے کچھ مانگے تو اللہ تعالی اسے عطا کردے اور جب بندہ دعا کرے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرمائے، جس طرح ایک قدسی حدیث میں آیا ہے: (( وَمَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ )) [میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے