کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 227
’’علمنا ھذا مقید۔ وفی روایۃ: مشید۔ علی الکتاب والسنۃ، فمن لم یقرأ القرآن و لم یکتب الحدیث لا یقتدیٰ بہ في علمنا ھذا‘‘ [ہمارا یہ علم(علم تصوف) کتاب وسنت سے مقید اور محکم ہے، لہٰذا جس شخص نے قرآن پڑھا نہ حدیث لکھی، ہمارے اس علم میں اس کی اقتدا نہیں کی جائے گی] علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس باب میں کئی قومیں داخل ہو کر انواع و اقسام کی زندیقیت اور نفاق میں پڑ کر یہ دعویٰ کرنے لگی ہیں کہ اولیا انبیا سے افضل ہیں، یا یہ کہ وہ ان پیغمبروں سے مستغنی ہیں۔ یہ لوگ ان رسولوں کی، جو اللہ کی شریعت لے کر آئے ہیں، خامیاں بیان کرنے لگے اور حلول و اتحاد کے مدعی بن بیٹھے اور وحدت الوجود وغیرہ کے قائل ہو گئے، حالانکہ یہ سب کفر، فسق اور عصیان کے اصول اور بنیادیں ہیں، جیسے شریعت سے بالا تر ہونا اور ممنوعہ چیزوں کی حلت کا دعویٰ کرنا وغیرہ۔ پھر انھوں نے اپنے اس دین ومسلک میں ایسی بہت سی چیزیں داخل کر دیں، جو دین اسلام میں بالکل شامل نہ تھیں۔ ان میں سے بعض نے یہ اعتقاد کیا کہ ان چیزوں سے دلوں میں نرمی حاصل ہوتی ہے، جیسے ناچ گانا۔ کسی نے یہ سمجھا کہ اس سے ریاضتِ نفوس مراد ہے، جیسے ان صورتوں سے عشق جنھیں دیکھنا حرام ہے اور حسین شکلوں کی طرف نظر کرنا۔ زنگہت سحری شوق یار میخیزد جنون ز سایۂ ابرِ بہار میخیزد [صبح کا منظر دیکھنے سے یار کا شوق اور محبت پیدا ہوتی ہے، ابرِ بہار کے سائے سے جنون بھڑکتا ہے] بعض نے یہ گمان کیا کہ ان میں کسرِ نفسی اور تواضع ہے، جیسے شہرتِ لباس وغیرہ جس کا شریعت میں ذکر نہیں ہوا ہے۔ پھر ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہیں، جیسے گیت گانے اور حرام چیز پر نظر کرنا، چنانچہ یہ لوگ اس امر میں ان لوگوں کے مشابہ ہو گئے، جنھوں نے اپنے دین کو لہو و لعب ٹھہرا لیا ہے۔ وأتی الغناء فکالحمیر تناہقوا و اللّٰہ ما رقصوا لأجل اللّٰہ