کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 223
(( إِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ الْبَلِیغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِيْ یَتَخَلَّلُ بِلِسَانِہٖ کَمَا تَتَخَلَّلُ الْبَقَرَۃُ بِلِسَانِھَا )) [1] [اللہ تعالیٰ ایسے زبان دراز شخص سے نفرت کرتا ہے جو اپنی زبان سے اس طرح باتوں کو لپیٹتا ہے جیسے گائے چارے کو (یعنی بے فائدہ اور بہت زیادہ باتیں کرتا ہے)] اس موضوع پر اور بھی بہت سی مرفوع وموقوف احادیث عمر، سعد، ابن مسعود اور عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے واسطے سے وارد ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا واجب ٹھہرا کہ جو شخص بہت باتوں اور لمبا چوڑا کلام کرنے والا ہے، وہ اس شخص سے بڑا عالم نہیں ہے جو کم گو ہے۔ امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم ایسے جاہل لوگوں کے ساتھ آزماتے گئے ہیں، جو متاخرین میں سے بڑی باتیں کرنے والوں کے حق میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ متقدمین سے افضل ہیں۔ پھر ان میں سے کسی کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ شخص، کیا صحابہ اور کیا ان سے بعد والے لوگ، ہر متقدم سے افضل ہے، کیوں کہ وہ کثیر البیان اور کثیر المقال ہے۔ ان میں سے کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ یہ بہت باتیں کرنے والا سات مشہور ومتبوع فقہا سے بھی افضل ہے، حالانکہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ہر متاخر سارے متقدمین سے بہتر ہو، کیونکہ یہ سات فقہا ان لوگوں کی نسبت، جو ان سے پہلے تھے، زیادہ کلام کرنے والے ہیں۔ لہٰذا جب وہ لوگ جو ان فقہا کے بعد آئے ہیں، وہ اپنے اقوال کی وسعت کے سبب ان سے زیادہ عالم ٹھہرے، تو یہ لوگ ان لوگوں سے، جو بہ نسبت ان کے اقوال میں کم وسعت رکھتے تھے، جیسے ثوری، اوزاعی، لیث، ابن مبارک اور ان کا طبقہ، بالاولیٰ اعلم اور افضل ہوئے، بلکہ ان لوگوں سے بھی بہتر ہوئے جو ان سے پہلے تھے، جیسے تابعین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، کیونکہ وہ بہ نسبت ان لوگوں کے، جو ان کے بعد ہوئے ہیں، کم کلام کرنے والے تھے، حالانکہ یہ سلف صالحین کے حق میں بہت بڑی عیب جوئی، بد گمانی اور انھیں جہل اور قصورِ علم کی طرف منسوب کرنا ہے، لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ! سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں بہت سچی بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’إِنَّھُمْ أَبَرُّ الْأُمَّۃِ قُلُوْباً، وَأَعْمَقُہَا عُلُوْماً، وَأَقَلُّہَا تَکَلُّفاً‘‘[2]
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۸۵۳) اس حدیث کے آخر میں موجود لفظ ’’بلسانھا‘‘ ترمذی میں نہیں ہے، البتہ یہ لفظ ’’شعب الإیمان‘‘ (۷/۴۳) اور ’’مسند البزار‘‘ (۶/۴۲۲) میں مروی ہے۔ [2] جامع بیان العلم (۲/۹۷)