کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 221
سلفِ امت اور ائمہ ملت میں جس کسی نے کثرتِ خصام اور طولِ جدال سے سکوت کیا تھا، وہ عدم واقفیت اور کلام کرنے سے عاجز آ جانے کی بنا پر نہ تھا، بلکہ علم اور خشیتِ الٰہی کے سبب تھا اور جس کسی نے ان کے بعد طویل کلام کیا، وہ اس لیے نہیں کیا کہ وہ ہی اس علم کے ساتھ مختص تھا اور کوئی دوسرا عالم اس کا اہل نہ تھا، بلکہ اس کا وہ کلام اور توسع علم کلام سے وابستگی اور قلتِ ورع کی وجہ سے تھا۔ جس طرح امام حسن بصری رحمہ اللہ نے ایک گروہ کو باہم دیگر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: یہ قوم عبادت سے اکتا گئی اور ان کے دل سے خوفِ خدا مانند پڑ گیا تو آپس میں جھگڑنے اور توتکار کرنے لگ گئے۔ مہدی بن میمون رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے ساتھ الجھنا شروع کیا تو وہ سمجھ گئے اور کہا: میں تیرا ارادہ جانتا ہوں۔ یعنی اگر میں تیرے ساتھ جھگڑا کروں تو میں جھگڑے کے دروازے کھولنے والا عالم ٹھہروں۔ دوسری روایت یوں ہے: ’’أنا أعلم بالمراء منک ولکن لا أماریک‘‘ [میں تجھ سے زیادہ حجت بازی کو جانتا ہوں، لیکن میں تجھ سے جھگڑا نہیں کروں گا] ابراہیم نخعی کہتے ہیں: ’’ما خاصمت قط‘‘ [میں نے کبھی جھگڑا نہیں کیا] عبد الکریم جزری رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’ما خاصم ذو ورع قط‘‘ [کسی صاحب ورع نے کبھی جھگڑا نہیں کیا] جعفر بن محمد رحمہ اللہ کا کہنا ہے: تم دین میں الجھنے اور جھگڑنے سے بچو، کیونکہ یہ دل کو غافل کر دیتے اور اس میں نفاق بھر دیتے ہیں۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إذا سمعت المراء فأقصر‘‘ [جب تم جھگڑا ہوتا ہوا سنو تو اسے چھوڑ دو] وہ یہ بھی کہتے تھے کہ جو شخص اپنے دین کو خصومات کا نشانہ بنائے گا، وہ بہت زیادہ ٹامک ٹوئیاں مارنے والا ہو گا۔ سابقینِ امت علم کی بنا پر کج بحثی اور جھگڑے سے رکے رہے اور بصارت کی بنا پر اس سے باز رہے، ورنہ وہ تو بحث پر بڑے قادر اور زور آور تھے۔ اس بارے میں سلف کا کلام بہت زیادہ ہے، مگر متاخرین اس گمان کی بنا پر فتنے میں مبتلا ہو گئے کہ جو شخص دینی مسائل میں بہت سا کلام اور جدال و خصام کرتا ہے، وہی بڑا عالم ہے، حالانکہ یہ بات نہیں ہے، بلکہ یہ تو جہل محض ہے۔ اکابر اور علماے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھو، جیسے شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) علی مرتضی، معاذ، ابن