کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 218
اہلِ رائے اور اہلِ عقل کے ضوابط و قواعد:
امور محدثات میں وہ ضوابطِ رائے اور قواعدِ عقل بھی شامل ہیں، جو فقہاے اہلِ رائے نے ایجاد کیے ہیں اور فقہ کے فروغ کو ان کی طرف لوٹایا ہے، خواہ وہ سنن کے مخالف ہوں یا موافق۔ وہ ان فروع کو انھیں قواعد مقررہ پر جاری کرتے ہیں، اگرچہ ان کی اصل نصوصِ کتاب وسنت کی تاویل ہے، لیکن یہ تاویلات ایسی ہیں کہ ان تاویلات میں دوسرے لوگ ان کے مخالف ہیں۔ لہٰذا ائمہ اسلام نے حجاز وعراق میں فقہاے اہلِ رائے پر اسی بات کا انکار کیا ہے اور اس کی مذمت اور انکار میں بہت مبالغہ فرمایا ہے۔
ائمہ و فقہاے اہلِ حدیث کا منہج:
جہاں تک اہلِ حدیث کے ائمہ اور فقہا کا تعلق ہے تو وہ صحیح حدیث کے تابع ہیں، خواہ وہ حدیث کہیں سے بھی مل جائے، بشرطیکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد والے لوگوں کے نزدیک یا صحابہ، تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم کے ایک گروہ کے نزدیک معمول بہ ہو۔ پھر جس حدیث کے ترک پر سلف نے اتفاق کیا ہے، اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خذوا من الرأي ما یوافق من کان قبلکم فإنہم کانوا أعلم منکم‘‘
[اپنے سے پہلے لوگوں کے موافق رائے کو اختیار کرو، کیونکہ وہ تم سے بڑے عالم تھے]
رہی وہ حدیث جو اہلِ مدینہ کے عمل کے خلاف ہے تو اس میں امام مالک رحمہ اللہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اہلِ مدینہ کے عمل کو اختیار کرتے تھے۔ بہر حال اکثر سلف صالحین حدیث ہی کو لینے والے اور اسی کے مطابق عقیدہ رکھنے اور عمل کرنے والے تھے۔
علمِ جدال:
سلف صالحین نے جن چیزوں پر انکار کیا تھا، ان میں سے ایک وہ ہے جسے مسائل علمِ حلال و حرام میں علمِ جدال کہتے ہیں، کیونکہ ائمہ اسلام کا یہ طریقہ نہ تھا۔ یہ جھگڑا تو ان کے دور کے بعد ایجاد ہوا ہے، چنانچہ فقہاے عراق نے شوافع اور احناف کے درمیان اختلافی مسائل میں اس جھگڑے کو ایجاد کیا، اختلافی کتابیں تالیف کیں اور ان مسائل میں بحث و جدال کو بہت زیادہ وسعت دی۔