کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 217
اور علم حدیث کی طرف منسوب لوگوں میں سے بہت سے لوگ بعض امور میں انہی کے راستے پر چلتے ہیں۔
2۔ان لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے جس نے عقلی دلائل کے ساتھ ان صفات کے اثبات کا قصد و ارادہ کیا ہے، جن کے متعلق کوئی اثر وارد نہیں ہوا تھا اور انھوں نے ان کی نفی کرنے والوں پر رد کیا۔ چنانچہ مقاتل بن سلیمان اور ان کے متبعین جیسے نوح بن ابی مریم وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔ پھر نئے اور پرانے محدثین کا ایک گروہ ان کے تابع ہو گیا۔ کرامیہ کا بھی یہی مسلک تھا۔ ان میں سے بعض نے صفات کے اثبات کے لے لفظاً یا معناً جسم ثابت کیا اور بعض نے اللہ تعالیٰ کے لیے وہ صفات ثابت کیں، جو کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئی، جیسے حرکت وغیرہ جو ان کے نزدیک صفاتِ ثابتہ کے لیے لازم ہے۔ سلف نے مقاتل پر عقلی دلائل کے ساتھ جہم پر رد کرنے کی بابت انکار کیا تھا اور مقاتل پر شدید طعن کیا تھا۔ بعض نے تو اس کے قتل کو حلال قرار دیا تھا، جن میں امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ مکی بن ابراہیم وغیرہ شامل ہیں۔
صفاتِ الٰہیہ سے متعلق سلف کا طریق کار ہی درست ہے:
الغرض درست بات وہی ہے جس پر سلف صالحین گامزن تھے اور وہ یہ ہے کہ صفاتِ الٰہیہ پر مشتمل آیات و احادیث کو بالکل اسی طرح تکییف اور تمثیل کے بغیر بیان کیا جائے جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں۔ سلف میں کسی سے اس کے خلاف کوئی بات پایہ صحت کو نہیں پہنچتی، خصوصاً امام احمد رحمہ اللہ سے۔ اسی طرح صفاتِ الٰہیہ کے معانی اور ان کے ساتھ مثالیں نہیں بیان کرنا چاہییں، اگرچہ امام احمد رحمہ اللہ کے قریب زمانے کے بعض لوگوں نے مقاتل کے طریقے کا اتباع کرتے ہوئے ایسا کیا ہے، لیکن اس بارے میں مقاتل کی پیروی نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ائمہ اسلام کی اقتدا کرنا واجب ہے، جیسے عبداللہ بن مبارک، امام مالک، سفیان ثوری، اوزاعی، امام احمد، اسحاق، ابو عبید اور دیگر سلف صالحین رحمہم اللہ۔
مذکورہ بالا سلف صالحین کے کلام میں متکلمین کے کلام کی جنس سے کوئی چیز نہیں پائی جاتی، پھر فلسفیوں کے کلام کا کیا ذکر ہے۔ کسی مسلمان نے امام احمد رحمہ اللہ کے کلام میں کوئی جرح و قدح نہیں کی۔ ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ جس شخص کے پاس کچھ علم ہے اور اس نے اپنے علم کی صیانت و حفاظت نہ کی اور اپنے علم کی نشر و اشاعت میں علم کلام میں سے کسی چیز کا سہارا لیا تو وہ سلف کے طریقے پر نہ رہا۔