کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 216
کے درمیان باہم مقابلہ چل پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ صورت واقع ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ فرمایا اور تقدیر پر کج بحثی سے منع کیا تھا۔[1] چنانچہ یہ قرآن مجید میں اختلاف کرنے کی ایک صورت اور کتاب مقدس میں جھگڑا کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔
2۔ عقلی قیاسات کے ساتھ تقدیر کا اثبات اور نفی کرتے ہوئے اس میں خوض اور بحث کرنا، جس طرح قدریہ کہتے تھے:
’’لو قدر و قضیٰ ثم عذب کان ظالما‘‘
[اگر وہ تقدیر مقرر کرے، اسی بنیاد پر فیصلہ کرے اور پھر اس پر عذاب دے تو وہ ظالم ٹھہرے گا]
اسی طرح جبریہ نے کہا ہے:
’’إن اللّٰہ جبر العباد علی أفعالھم‘‘
[بلاشبہہ اللہ تعالی نے بندوں کو ان کے افعال و اعمال پر مجبور کیا ہے]
3۔ تقدیر کے اسرار و رموز سے متعلق خوض و بحث کرنا، حالانکہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ وغیرہ سلف نے اس سے منع کیا ہے، کیونکہ لوگ اس کی حقیقت پر مطلع نہیں ہو سکتے ہیں۔
نیز وہ محدثات و بدعات جنھیں معتزلہ اور ان کے ہم نواؤں نے ایجاد کیا ہے، ان میں سے ایک عقلی دلائل کے ساتھ اللہ تعالی کی ذات اور صفات پر کلام کرنا ہے، حالانکہ یہ تقدیر پر کلام کرنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ تقدیر میں کلام کرنا تو اللہ تعالیٰ کے افعال میں کلام کرنا ہے اور یہ اس کی ذات و صفات پر کلام کرنا ہے۔ پھر ان لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
1۔ ایک وہ قسم جس نے کتاب وسنت میں وارد صفاتِ الٰہیہ کی نفی کی ہے، کیوں کہ اس کے نزدیک وہ صفات مخلوقات کے ساتھ تشبیہ کو مستلزم ہیں، جس طرح معتزلہ نے کہا ہے:
اگر وہ (اللہ) دکھائی دے تو وہ جسم ہوگا، کیونکہ وہ کسی جہت اور سمت ہی میں دکھائی دے گا۔ نیز انھوں نے کہا ہے کہ اگر اس کا سنائی دینے والا کلام ہو تو اس کا جسم ماننا پڑے گا۔ وہ قوم بھی ان (معتزلہ) کی موافقت کرتی ہے جو رحمن کے عرش پر مستوی ہونے کی نفی کرتی ہے، اس نفی کی وجہ اور سبب یہی تشبیہ ہے، جو معتزلہ اور جہمیہ کا طریق کار ہے۔ سلف نے ان کے بدعتی اور گمراہ ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ متاخرین
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۱۳۳)